اتحاد ویلفیئر سوسائٹی اراضی پنڈ

کسی بھی قریبی رشتہ دارکی موت کے بعد اسکے خاندان کے افرادغم کے صدمے سے دوچار ہوتے ہیں اور اس موقعہ پرکسی قریبی عزیز کی موت کے غم کی شدت کو سہنا پسماندگان کے لیے ایک مشکل مرحلہ ہوتا ہے اسلام میں میت کی تجہیز وتکفین کا بہت سادہ سا طریقہ بتایا گیا ہے جس میں لواحقین کیلیے آسانی اور میت کا پورا احترام ہے مگر ہم اس طریقے پر من وعن عمل کرنے سے کتراتے ہیں جس گھر میں فوتگی ہوجاتی ہے ایک طرف لواحقین غم کی شدت سے نڈھال ہوتے ہیں تو دوسری طرف کم آمدنی والے گھرانوں کو فوتگی کی رسومات کی انجام دہی پر اٹھنے والے اخراجات انکے لیے مزید پریشانی کا باعث بنتے ہیں امیر گھرانوں سے قطع نظر موجودہ مہنگائی کے عالم میں فوتگی کے دن بعض لواحقین کیلیے تجہزوتکفین اور مہمانوں کیلیے کھانے پینے کا بندوبست کرنا بھی ایک تکلیف دہ مرحلہ ہوتا ہے تاہم اگر صاحب استطاعت محلہ دار اور گاؤں کے دیگر افراد اس غم کے موقعہ پر مل جل کر دست تعاون بڑھائیں تو پریشان حال گھرانے پر یہ مشکل مرحلہ بھی با آسانی گزجاتا ہے فوتگی کے دن کی مناسبت سے بندہ ناچیز نے دیگر دوستوں کے ہمراہ جن میں فلاحی خدمت کا جذبہ رکھنے والی گاؤں کی ممتازسیاسی وسماجی شخصیت اور اتحاد ویلفیئر سوسائٹی کے صدرجناب چوہدری محمدحنیف چوہدری محمدگلستان محمد رشید چوہان حاجی محمد بشیرمحمد لطیف بھٹی محمد امجد آفتاب محبوب عبدالرزاق شاہد جاوید نزاکت علی محمد ذوالفقار محمد نثار عدیل امتیاز آصف نذیر چوہدری محمد ذوالفقار‘حامد پیا محمدسکندر‘جہانزیب عاطف امین حافظ باسط محمد زاہد اوردیگر سربراہ خاندان کی مکمل سپورٹ وحمایت ہمارے شامل حال رہی اسکے علاوہ کمیٹی کی تشکیل کے مرکزی کرداروں میں گاؤں کی سماجی شخصیت سبط الحسن‘صوبیدارسجادحسین بھٹی سیکرٹری احسان الحق بھٹی ساجدمحمود کالم نگار پنڈی پوسٹ یاسر اقبال نعمان فیصل ناصرنذیر اوراحتشام الحق شانی جیسے دوستوں سے مکمل مشاورت کے بعد گاؤں اراضی پنڈ میں کمیٹی کی تشکیل کا بیڑہ اٹھایا اس مقصد کو عملی جامہ پہنانے کیلیے وفد کی صورت میں گاؤں کے ہرگھر کی چوکھٹ پر دستک دی الحَمْدُ ِللہ ہماری یہ کاوشیں رنگ لائی اور گاؤں کی تقریبا 90فی صد آبادی اس کمیٹی کی تشکیل پر رضامند ہوگی مشاورتی عمل مکمل ہونے کے بود 9جون 2022کی شام 6بجے گاؤں کی مسجد عائشہ صدیقہ میں کمیٹی کی بنیاد رکھ دی گئی تھی دوستوں کی باہمی مشاورت سے اس کمیٹی کا نام اتحاد ویلفیئر سوسائٹی اراضی پنڈ تجویز کیا گیا ہے اور اسکے اغراض ومقاصد بھی وضع کیے گئے جن کی تفصیل کچھ یوں ہے۔گاؤں میں کسی بھی فوتگی کی صورت میں فوتگی والے گھر کمیٹی کی طرف سے پچاس ہزار روپے نقد دیے جائیں گے تاہم یہ رقم صرف ان گھرانوں کو فراہم کی جائے گی جو سوسائٹی کی رکنیت رکھتے ہوں۔ایک دن سے لے کر 5سال تک بچے کی فوتگی کیلیے رقم کی حد پانچ ہزار روپے مقرر کی گئی ہے گاؤں میں کسی بھی فوتگی کی صورت میں کمیٹی میں شامل ہر رکن 1000روپے بطورکمیٹی فنڈ میں جمع کرائے گا جو فوتگی کی صورت میں وصول کیا جائے گا مرد حضرات کیلیے حسب سابق تعزیت کے لیے تین دن جبکہ مستورات کیلیے 7دن مقرر کیے گئے ہیں تاہم چہلم کا ختم لواحقین اپنی مالی استطاعت کے مطابق کسی بھی وقت کرا سکتے ہیں کمیٹی کی طرف سے فوتگی والے دن گاؤں کی خواتین کو کھانا وغیرہ تناول فرمانے پر قدغن لگادی گئی ہے صرف دور دراز سے آنے والے مہمانوں کیلیے طعام کا انتظام کیا جائے گا تاہم فوتگی والے گھر سے میت کی رخصتی کے بعد ہی باہر سے آئے مہمانوں کو کھانا فراہم کرنے کی اجازت ہوگی کیونکہ اکثراوقات گھر میں میت رکھی ہوتی ہے اور دوسری طرف خواتین میں چاولوں کی تقسیم پر شور شرابہ اور جشن کا سماں ہوتا ہے ایسا لگتا ہے جیسے یہ کوئی غمی کا نہیں بلکہ خوشی کا موقعہ ہو تو ان رسومات کے خاتمے کے حوالے سے بھی گاؤں کے تمام افراد متفق ہیں اور وقت کیساتھ ساتھ رفتہ رفتہ فوتگی کے علاوہ بھی سماج میں پائی جانے والی غیر ضروری رسومات کے مکمل خاتمے کی جانب بھی بڑھا جائے گا گاؤں کی سطح پر تشکیل پانے والی اس کمیٹی کی آمدن اور اخراجات کا مکمل ریکارڈ مرتب ہوگا کمیٹی کا ہر وہ رکن جو فنڈ دیتا ہے جب چاہے وہ رجسٹر فنڈچیک کرسکتا ہے اور ذمہ داران سے باز پرس کرنے کا بھی مجاز ہوگا تاہم فنڈ نہ دینے والا رکن فنڈ رجسٹر چیک کرنے کا مجاز نہیں ہوگاجبکہ کمیٹی کے اراکین پرمشتمل واٹس ایپ گروپ بھی تشکیل دیاجا چکا ہے جسکے زریعے تمام اراکین کو آمدن اور اخراجات کے حوالے سے لمحہ بہ لمحہ باخبر رکھا جائے گا یاد رکھیں غیرضروری رسم ورواج کو اپنی زندگی پر نافذ کرنا یا انکے خلاف آواز بلند کرنے میں معاشرے کی تعلیمی اور تہذیبی معیار کا بڑا عمل دخل ہوتا ہے جس معاشرے میں جہالت کا غلبہ ہو وہاں غیرضروری رسومات کا اثر سرچڑھ کر بولتا ہے اور جس معاشرے میں شعور تعلیمی و تہذیبی اقدار کو عروج حاصل ہو وہاں یہ رسمیں خود بخود دم توڑنے لگتی ہیں آئیں آج ہم سب اپنی ذات گھر اور گاؤں سے ان غیر ضروری رسم ورواج اور روایات کے خاتمہ کا عہد کریں ممکن ہے ان رسوم کے جاری رکھنے پر شیطان آپکو ورغلائے اور آپکی دولت ان رسموں کی پاسداری پر اصرار کرے مگر اگر ہم اپنے پختہ ارادے پرثابت قدمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان رسومات کے خاتمے کا تہیہ کرلیں تو یہ دوسروں کے لیے بھی ایک بہترین مثال قائم ہوگی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں