136

اتحاد بین المسلمین وقت کی ضرورت

قارئین کرام! فخر الانبیاء نبی آخر الزماں جناب محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جب آمد ہوئی تو ظلمت، کفر، اندھیرے نے پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا، اسلام کی آمد کے ساتھ ہی کفر کے اندھیروں نے دھیرے دھیرے چھٹنا شروع کر دیا، اسلام مخالف طاقتوں نے دبانے کی بہت کوشش کی مگر چونکہ دین محمدی نے غالب آنا تھا تو روز بروز یہ روشنی دنیا بھر میں پھیلتی چلی گئی، اس وقت اسلام کے مقابلے میں کفر ہوتا تھا جس کے بعد ایک تیسری جہت منافقین کی پیدا ہوئی جنہوں نے کفر کے مقابلے میں قدرے زیادہ اسلام کو نقصان پہنچایا مگر انکو بھی منہ کی کھانا پڑی، یہ سلسلہ چلتا رہا اور ہر دور میں اسلام کے ماننے والوں میں تفریق پیدا ہوتی رہی، اب چودہ صدیوں بعد آپ اپنے اردگرد مختلف مسالک و فرقے دیکھ رہے ہوں گے جن میں سنی شیعہ وہابی دیوبندی اہلحدیث سرفہرست ہیں، اب اس صدی میں حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ اہلسنت (سنی) اپنے مسلک میں ایک دوسرے کیخلاف ہیں یہی حساب اہل تشیع اہلحدیث دیوبند میں بھی ہے کہ اپنے مسلک میں رہتے ہوئے ایک امام کے پیروکار ہو کر تفریق کا شکار ہیں اور ایک دوسرے کیخلاف محاذ آراء ہیں، کوئی کسی کو کچھ لقب دے رہا ہے اور کوئی کسی کو کچھ، اور بھولی عوام جس کو ڈگڈگی بجانے والا چاہیے وہ جس طرف ڈگڈگی بجتی دیکھتے ہیں اسی جانب لپک پڑتے ہیں، کوئی پیمانہ اور معیار نہیں رہا کہ چیک کیا جا سکے کہ کون صحیح ہے اور کون غلط۔قارئین!! حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ منبر رسول کی اہمیت جانے اور سمجھے بغیر ہر ایک اسکو اپنے مقاصد کیلیے استعمال کر رہا ہے، گزشتہ روز بھی ایک موصوف کا خطاب سن رہا تھا جو بڑے تلخ لہجے میں تقریر کر رہے تھے اور اس شخص کیخلاف بات کر رہے تھے جس نے کبھی کسی کیخلاف بات ہی نہیں کی مگر چونکہ اس کا کام اس قدر بڑا ہے کہ وہ پوری دنیا میں جانا و پہچانا جاتا ہے تو اس سے جیلس ہو کر اس پہ تنقید کر کے اپنا قد بڑھانے کی مذموم کوششیں کی جا رہی ہیں اور نفرت کے بیج بوئے جا رہے ہیں، مجھے حیرانگی ہوتی ہے ایسے اسلام دشمن لوگوں کو بلانے والوں پر، ایسے اسلام دشمنوں کی جیبیں گرم کرنے والوں پر جو صرف فرد واحد کی دشمنی و مخالفت میں اسلام کا نقصان کر رہے ہیں، یہ کوئی ایک شخص نہیں بلکہ یہ ایک مافیا ہے جو کراچی سے لاہور اور لاہور سے پشاور تک اور ملک کے طول و عرض میں ہر جگہ مختلف اشکال میں پایا جاتا ہے جن کا مقصد انتشار پیدا کرنا ہے اور انکی زبان سے کوئی محفوظ نہیں رہتا ہاں البتہ وہ محفوظ ہے جو ان کا حامی بن کر ان کے نعرے مارے، اور ہم نے سرور کائناتؐ کا وہ فرمان مبارک یکسر بھلا دیا ہے کہ ””مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرا مسلمان محفوظ رہے”” راقم نے آج تک مولانا طارق جمیل، ڈاکٹر محمد طاہرالقادری جیسے بڑے قد کے لوگوں کی زبان سے ایسی کوئی بات نہیں سنی جس میں انہوں نے کہا ہو کہ فلاں مسلک اور فلاں شخص ایسا ہے، حالانکہ وہ ان چھوٹے چھوٹے انتشاری لوگوں سے بہت زیادہ علم رکھتے ہیں مگر وہ چونکہ بڑے مشن کے راہی ہیں تو وہ الجھ کر اپنا وقت ضائع نہیں کرنا چاہتے، اسی طرح فقہ جعفریہ سے تعلق رکھنے والے بین الاقوامی سکالر ڈاکٹر سید شبیہ الحسن رضوی بھی ہیں جو جب بھی بات کرتے ہیں تو امن محبت رواداری اخوت اور بھائی چارے کی بات کرتے ہیں اور انکے خطابات امہات المومنین اور صحابہ کرام کے ذکر کے ساتھ ہوتے ہیں، انکو کبھی کسی مسلک یا شخصیت کو مخاطب کر کے خطاب کرتے نہیں سنا اور ان جیسے لوگ زیادہ تو نہیں مگر تھوڑی تعداد میں سنی شیعہ دیوبندی اہلحدیث میں پائے جاتے ہیں جو ناپ تول کر بغیر انتشار پھیلائے بات کرتے ہیں اور انکو دیگر مسالک کے سنجیدہ لوگ بغیر شناخت ظاہر کئے سننے کیلیے بھی آتے ہیں۔۔

کم پڑھے لکھے اور اندھی تقلید کے خوگر ذاتی تشہیر کیلئے مسلک کا پرچار کر رہے ہوتے ہیں


قارئین کرام! جب ہم اس انتشاری اور مذہبی منافرت سے بھرپور ماحول پہ نظر دوڑائیں تو ہمیں اپنا وجود بے معنی بے وقعت سا معلوم ہوتا ہے کہ ہم کس صدی میں پیدا ہو گئے حالانکہ میرے سمیت کسی کا وجود بے وقعت و بے معنی نہیں ہے مگر ہم اس گھٹن زدہ ماحول میں کیوں جی رہے ہیں؟؟ یہ سوال ہر سنجیدہ و صاحب عقل شخص کے ذہن میں ضرور گردش کرتا ہے، اس مذہبی منافرت کی آگ کو روکنے کیلیے کبھی بھی کسی حکومت میں ریاستی سطح پہ کوئی کام نہیں ہوا، ہر سال صرف محرم الحرام میں امن کمیٹیاں بحال ہوتی ہیں اور قانون نافذ کرنے والے ادارے میٹنگ کر کے اپنا ٹوٹل پورا کرتے ہیں، سارے سال کے دوران یہ عمل کیوں جاری نہیں رہتا؟؟ کیوں ایسے لوگوں کو منبر پر بیٹھنے سے نہیں روکا جاتا جو مذہبی منافرت پھیلاتے ہیں؟؟ ادارے کب ایکشن لیں گے؟؟ اس سب سے بڑھ کر ہمیں یعنی عوام کو کب عقل آئے گی کہ کب کس کو منبر رسول پہ بٹھانا ہے اور کس سے کیا سننا ہے؟؟ضرورت اس امر کی ہے کہ مذہبی منافرت اور مسالک سے بالاتر ہو کر گفتگو کرنے والے افراد کو اپنی صفوں میں جگہ دی جائے اور جس کا جو مسلک ہے اس کو اس میں رہنے دیا جائے، ہم سب نے اپنا حساب دینا ہے کسی دوسرے کا نہیں، مسئلہ تب پیدا ہوتا ہے جب ہم دوسرے کے ٹھیکیدار بن جاتے ہیں، دوسرا کس مسلک سے ہے اور وہ کیا کرتا ہے وہ اس کا ذاتی فعل ہے جس کا وہ خود جوابدہ ہے، آپ سے آپکے اپنے متعلق سوال ہو گا اس کی تیاری کریں اور امت کو اتحاد کی طرف لائیں کیونکہ وحدت امت اس دور کا سب سے بڑا اور اہم مسئلہ ہے۔ شاید کہ اُتر جائے تیرے دل میں میری بات۔ والسلام

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں