124

اتباع سنتؐ/صاحبزادہ قاضی محمد عمران

خدا وندکریم کا احسان عظیم ہے کہ اس نے سب سے بہترین امت میں پیدا فرمایا، چنانچہ ارشاد ہوتا ہے؛تم بہترین امت ہو، جو لوگوں کیطرف نکلی نیکی کا حکم دیتے ہوے اور برائی سے روکتے ہوے۔ہم سے قبل لاکھوں انبیاء مختلف اقوام اورقبائل کی راہبری کے لیے تشریف لاے یوں ہم سے قبل بہت سی امتیں اس دارفانی میں آتی رہیں۔ نبی آخرالزماں ﷺ کی جلوہ گری کے بعد قیام قیامت تک کے لیے انبیا ء سلسلہ منقطع کرتے ہوے اخری امت کے طور پر آج ہم دنیامیں موجود ہیں۔ غرور اور تکبر خدا کو ناپسند ہے مگر دینی ، مذہبی اور ملی اساس پر تفاخر غیرت ایمانی کا حصہ ہے۔اس نعمت عظمیٰ پر جس قدر بھی تحدیث نعمت کے پہلو میں مسلم امت کی شان اور عظمت پر بات کی جاے کم ہے۔تاریخ عالم انسانیت بھی ہماری رفعت و عظمت پر شاہد ہے۔ انسان کی سرشت میں ہے کہ وہ اپنی قوم ،قبیلے، خاندان اور برادری کی بنیاد پر فخر کرتاہے، مگر بحیثیت مجموعی ہمیں مسلم امت ہونے پر بھی ایسے ہی فخر کرنا چاہیے۔دین اسلام صرف ایک مذہب ہی نہیں بلکہ انسانی زندگی کے تمام پہلووں کا احاطہ کرتے ہوے کتاب،سنت،اجماع اور قیاس کے ذریعے قیام قیامت تک راہنمائی کاذریعہ ہے ۔ تاریخ کی کامیاب ترین شخصیات نے حیرت انگیز اور عقل انسانی کو دنگ کر دینے والے محیر العقو ل کارنامے سرانجام دیے ، اگر تمام کا جائزہ لیا جاے اور منصفانہ نظر ڈوڑائی جاے تو سب سے زیادہ شخصیات ظہور رسالت مآبﷺ سے لیکر ماضی قریب تک اسی مسلم امت میں نظر آئیں گی اور ان سب میں ایک بات مشترک ہے ، ان سب کی کامیابی کا راز کتاب و سنتؐ کی تعلیمات سے تعلق اور استفادہ ہے۔عصر حاضر میں مسلم تہذیب اور تعلیمات کو مسخ کرنے کے لیے غیر اقوام کی جانب سے بہت کاوشیں ہوییں، نتیجتاً اسلام کی قومیت، ملی جذبے، یکجہتی اور تشخص کو شدید نقصان پہنچا۔ آج کا نوجوان ایک ایسے دوراہے پر کھڑا ہے جہاں ایک طرف الیکٹرانک اور سوشل میڈیا اسے جدت کے نام پر اسلام کو قدیم اور ناقابل عمل قرار دیتے ہوے اسے بدتہذیبی کی طرف بلاتا ہے، دوسری اسلام کے نام نہاد ٹھیکیدار علماء اسے ایسے اسلام کی طرف بلاتے ہیں جو اس کی فکر ،نظریات اور تعلیمات سے متصاد م ہیں۔ ایسی صورتحال میں حقیقی اسلامی تشخص اور تہذیب کے احیا ء کے لیے نوجوانوں کو اسلامی تعلیمات اور سنت نبوی ؐسے ہمکنار کرنے میں اساتذہ، والدین اور حق پرست علما ء کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔کسی بھی بچے کی تربیت اسلامی خدوخال اور اسلوب پر اسی صورت ممکن ہے جب اسے ایسا ماحول میسر آے۔ یہ اسلامی ماحول ہی تھا جس نے عرب کے جاہلانہ اور سفاقانہ نظام سے نکال کر عمر کو فاروق اعظمؓ، ابوبکر کو صدیق اکبرؓ، عثمان کو غنیؓ اور علی کو حیدر کرارؓ بنا دیا۔مسجد و مدرسہ سے جب اسلام کا مقصد صرف پنجگانہ نماز، روزہ اور حج تک محدود کردیا جاتاہے تو اسلام کا حقیقی تشخص نئ نسل کے سامنے دم توڑتا نظر آتا ہے۔ نماز کا حکم تو سرور کل جہاں ﷺ کے اعلان نبوت کے بھی بعد عطا ہو، آپ کی چالیس سالہ ابتدائی حیات مقدسہ انسانیت کا درس دیتی ہے، مسلمانیت بعد میں ۔کیا آج کے وارثان ممبر و محراب میں اخلاقیات محمدیہ ؐکے آثار موجود ہیں؟تبلیغ دین کے عوض ریٹ مقرر کرنے والے کیا ہماری نسل نو کو سنت نبویؐ اور اسلام کے حقیقی تشخص سے بہر ہ ور کرنے کی استعداد رکھتے ہیں؟ممبر و محراب کو اپنے ذاتی تفاخر ، اور فقط لفظوں مقید عجز کے لیے استعمال کرنے والے خود پرست و خودپسندمبلغین کیا اسلامی تعلیمات کی دعوت دینے کا حق ادا کرسکتے ہیں؟ یقیناًان تمام سوالات کا جواب نفی میں ملتا ہے۔چنانچہ کتاب و الفاظ سے ہٹ کر مصطفویؐ سیرت کا نمونہ تلاش کرنے چراغ لے کر نکلیں کبھی رات کی اندھیریوں میں بھی نہ ملے گا۔مشن مصطفی ؐکو ہم نے پس پشت ڈال دیا۔ اسلام مذہب انسانیت و اخلاقیات ہے۔ جس ہستی کی خاطر کون و مکاں کو سجایا گیا ، اس کے کردار کو انسانیت کے لیے اسوہ حسنہ قرار دیتے ہوے اس ہستی کے اخلاقیات کو سب سے عظیم قرار دیا گیا۔ جو طایف کی وادی میں خدا کا پیغام پہنچانے گیا تو لہو لہان کر دیا گیا، جو خانہ خدا میں عبادت کے لیے گیا تو اونٹ کی اوجھڑی سر پر رکھ دی گء، جوگلی سے گزرا تو کہیں کانٹے بچھاے اور کہیں سر پر کوڑا پھینکنا معمول بنا دیا گیا،مگر اس کے پایہ استقلال میں لغزش نہ تھی، کیا آج کے وارثان ممبر و محراب میں ایسی اخلاقی بلندی کے آثار موجودہیں؟ وہ تو خدا کا محبوب تھا، اسی کی محبت میں یہ سب برداشت کیا، اسی کی محبت کا راستہ عملاً دکھایا اور اپنے مشن یعنی انسانیت کی فلاح اور مقصد خلق و تخلیقات سے یو ں باشعور کیا کہ اس کے اثرات آج کروڑوں افراد کے دلوں میں اس ہستی کے عشق کی صورت میں عیاں ہیں۔یہی عشق آج کے مسلم نوجوان کو اسلام کی حقانیت اور اس روشنی کی تلاش پر مجبور کرتا ہے جس نے ظلمت کدہ عوالم کو منور کیا۔ مگر اسلام کے نام نہاد ٹھیکیداروں کا کردار، اخلاقیات اور عمل نوجوان کو تذبذب میں مبتلا کرتے اور اسلام کے متعلق محبت کے بجاےمنافرت کے جذبات کو فروغ دینے کا باعث بنتے ہیں۔ضرورت اس امر کی ہے کہ رسول خداﷺ کی سیرت اور اسوہ کو صرف چند فرای60ض تک محدود کرنے کے بجاے60 آپکی کل سیرت کو اپنایا جاے اور اس پیغام عظیم یعنی فلاح انسانیت کو عام کیا جاے۔یقین جانیے جس دن ہمارے مذہبی پیشوا اپنے ہاتھ سے کمائیں گے، اسلام کی ترویج و تبلیغ کو صرف محبت مصطفی ﷺ میں دنیاوی لالچ کے بغیر اپنا فریضہ تصور کریں گے اسی دن اسلام کو نشاط ثانیہ میسر آے گی۔کتاب الٰہی میں اللہ کریم کے برگزیدہ انبیا کا ذکر خیر ملتاہے تو ان کی سیرت میں ایک واضح پیغام ہاتھ سے کمائی ہے۔مختلف انبیا ء نے رزق حلال کے حصول میں ہاتھ کی کمائی کو ترجیح دی اور پیغام خداوندی کے عوض کسی دنیاوی نفع کی غرض باقی نہ رکھی۔ جلیل القدر صحابہ اور اولیا کرام کی سونح بھی اسی بات پر گواہ ہیں کہ دین کے حقیقی ترجمان جو بھی ہوے انہوں نے عملی زندگی اسلامی تعلیمات، اقدار اور سنت نبوی کو کماحقہ اختیار کیا،مگر کسی نے بھی ترویج دین کی کاوش یا تبلیغ اسلام کو ذریعہ معاش ہرگز نہ بنایا۔مگر اس کے ساتھ ساتھ اساتذہ ، والدین اور بچوں کو بھی فرض ہے اسلام کے متعلق اپنی تعلیمات میں اضافہ کریں اور حق پرست صوفیا و علماء کی صحبت کے ذریعے اسلام کے حقیقی تشخص کو اجاگر کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔{jcomments on}

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں