ابھی بھی وقت ہے واپس چلتے ہیں

اس وقت قائد کی دھرتی کے کونے کونے میں منشیات فروشی، زنا کاری اور ظلم و جبر کی داستانیں اپنے عروج پر ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ اگر کافر اور منافق دونوں کو جہنم واصل کرنا پڑے تو پہلے منافق کو گولی مارو۔ موجودہ حالات میں دُنیا انتہائی قہر زدہ ماحول میں تڑپتی ہوئی زندہ ہے۔ کہا جاتا ہے کہ جوان بیٹا جب اپنی بیوی کے سامنے اپنی ماں کی تذلیل کرتا ہے

تو شرم کے مارے زمین دراڑشدہ یعنی ٹکڑے ٹکڑے ہو جاتی ہے اور اسے زلزلے کا نام دیا گیا ہے۔ جب بیٹا یا اولاد میں سے کوئی بھی اپنے والد کو بھری محفل میں کردار کی وجہ سے شرمندہ کرتا ہے تو والد زمین پھٹنے کا انتظار کرتا ہے کہ وہ اس میں گھس جائے۔ ہمارے ایمان کے حالات یہ ہیں کہ کورونا کے نازل ہونے کے چند دن بعد رات ہم نے اپنے گھروں کے چھتوں پر آذانیں دیں جو کہ بہت اچھی بات ہے

۔ مگر جب یہ وبا حد سے بڑھ گئی تو ہم نے سوچا کہ ہمارے محلے میں، گھر میں یا پورے خاندان میں کوئی بھی اس وبا کا شکار نہیں ہوا تو ہم نے یہ کہہ کر اپنی عارضی نمازوں اور آذانوں کو خیر آباد کہہ دیا کہ کورونا ایک ڈرامہ ہے۔ اور آج ہر اُس جگہ پر وبا پھیل چکی ہے جہاں لوگ اس کو محض ایک سازش تصور کرتے تھے۔ خاص طور پر گاؤں کے لوگ یہ فرماتے تھے کہ یہ وبا شہروں کی وبا ہے۔

اور آج جب جوان میتیں بغیر ہجوم کے جنازے کے دفن ہوتے دیکھتا ہوں تو دل خون کے آنسو روتا ہے۔ یہ وباء ہماری بے احتیاتی کی وجہ سے شہروں سے زیادہ گاؤں میں تابڑ توڑ حملے کر کے بڑھاپے کی دہلیز پر کھڑے افراد کو اپنے نوجوان بچوں کے جنازے پڑھانے پر مجبور کر رہی ہے۔ جب بھی اپنے ربّ سے اس وبا کے خاتمے کی دُعا کریں تو اُس کا لب لباب یہ ہو کہ یہ سب میرے گُناہوں کا نتیجہ ہے نہ کہ دوسروں کے گُناہوں کارونا رویا جائے۔

یہ دُعا کچھ اس طرح ہو ”اے میرے مالک اے کُل کائنات کو پیدا کرنے والے اور انسان سے ستر کروڑ ماؤں سے زیادہ پیار کرنے والے رحیم ربّ آج یہ وبا یعنی کورونا وائرس جو کہ صرف میری کوتاہیوں اور میرے گُناہوں کی وجہ سے پوری دُنیا میں تباہی و بربادی برپا کر رہا ہے۔ میرے مالک میرے گُناہوں کی وجہ سے ساری دُنیا کو عذاب میں مبتلا نہ کر۔ میں جانتا ہوں میرے مالک کوئی باپ یا ماں گناہ کرتے ہیں تو تو اُنکی اولادوں کو سزا دے کر قیامت تک وہ والدین تڑپتے رہتے ہیں

۔ اے میرے مالک میری اولاداور تمام گھر والوں سمیت دُنیا کے ہر فرد کو اس آزمائش سے نکال دے جو صرف میرے گُناہوں کی وجہ سے رونما ہوئی“۔ خدارا ہر جگہ اور ہر وقت دوسروں کے گُناہوں کا رونا مت روئیں بس اپنے گریبانوں میں جھانکا کریں۔ ذرا سوچیں کہ اگر پوری دُنیا میں ہر فرد صرف اپنے گُناہوں کی معافی مانگ کر ایسی وباؤں سے آزادی کی بات کرے تو ہر فرد خُدا کے سامنے سرنڈر کرتا ہوا پایا جائے گااور ربّ کی ذات معاف فرما دے گی۔ کیا ہی بات ہے کہ جو گنہگار ہے وہ خود اپنے گُناہوں کی معافی مانگے شرمندگی کی حالت میں تو میراربّ اس بندے کو ہر گز شرمندہ نہیں ہونے دے گا۔

ہوتایہ ہے کہ ہم دوسروں کے گناہوں کی معافی مانگ رہے ہوتے ہیں مگر دوسرے اپنے گُناہوں کی معافی خود نہیں مانگتے۔بھلا ایسے کیسے ہو سکتا ہے کہ غلطی کرنے والا فرد جس سے زیادتی کر تا ہے اُس سے خود معافی نہ مانگے یا اُس کے سامنے غلطی کا اعتراف نہ کرے اور کسی دوسرے سے کہے کہ جاؤ اور اُسے کہو مجھے معاف کر دے۔ بلاشبہ جو آدمی دوسروں کے گناہوں کی معافی مانگتا ہے وہ یقینا ایک عظیم انسان ہے اور اُسے اس بات کا اجر ضرور ملے گا مگر جس کے لیئے ربّ سے گڑ گڑا کر معافی مانگ رہا ہے اُسے اُس کا اجر نہ ہونے کر برابرملے گا۔ جب تک ہر فرد خود اپنے خالقِ حقیقی کے سامنے اپنے کیئے پر شرمندہ نہیں ہو گا تب تک یہ دُنیا ہچکولے کھاتی رہے گی اور انہی ہچکولوں میں سے ایک جھٹکا قیامت کا جھٹکا ثابت ہو گا

اور دُنیا تو ہاتھ ملتی رہ جائے گی۔ اگر کورونا وبا کے بعد یہ دُنیا سلامت رہ گئی تو ساری دُنیا کے لکھاری جب اس وبا کے دنوں کی داستانیں رقم کریں گے تو پڑھنے والے اور سننے والوں پر کپکپی طاری ہو جائے گی۔ اپنے پیاروں کے تڑپ تڑپ کر مرنے کے حالات، ایک والد اور والدہ اپنے لختِ جگر کو دفنانے سے پہلے بھوسہ تک نہ دے پائے گی۔ آج تابوت میں بند وہ دور بہت دور ایک میت ایک باپ کے بیٹے کی میت ہے، ایک ماں کی مامتا کی گمنامی ہے، ایک بہن کی بھائی پر مان کی قُربانی ہے۔ ایک بڑے بھائی کی دھاڑیں ہیں

جو وہ اپنے معصوم سے بھائی کے اچانک بچھڑ جانے پر ساری دُنیا کے سامنے زور آورثابت ہو رہیں ورنہ بھلا کوئی مر د کبھی کسی کے سامنے روتا ہے؟؟ چلیں آئیں آج یہ یقین کر لیں کہ یہ دُنیا پھولوں کی سیج پر گزرے یا کانٹوں بھر ے رستوں پر آخر اس فانی دُنیا نے فنا ہو ہی جانا ہے۔ لہذا اگر اس دُنیا میں زندہ رہنے کی قُربانی دینی پڑرہی ہے تو آنے والی ابدی دُنیا میں اس کا اجر ضرور ملے گا۔ پوری دُنیا نے اس وبا سے کچھ حاصل کیا ہے۔ انگنت افراد نے اپنی ساری زندگی کی کمائی مخلوق خدا پر قُربان کر دی اوروہ لوگ یقینا بے

شمار گُناہوں کے باوجود ربّ کے پسندیدہ افراد بن گئے ہیں اوربے شمار افراد نے دُنیا کی مجبوریوں سے فائدہ اُٹھا کر اس عارضی دُنیا کی عارضی دولت کمائی اورتاجروں نے ایک روپے کی چیز سو روپے میں فروخت کی اور اپنی آخرت زنگ آلود بنا ڈالی۔ ایسی وبائیں، ایسے حالات اور واقعات نازل کر کے ربّ کی ذات اچھے اور بُرے لوگوں کی چھانٹی کر کے گریڈ اے، گریڈ بی، گریڈ سی، اور گریڈ ڈی کی ترتیب دے کرا عارضی دُنیا کے بعد دائمی دُنیا کا انفراسٹرکچر تیارکر رہی ہوتی ہے تا کہ قیامت کے فوراََ بعد ہر فرد اپنی اپنی کارگردگی کے مطابق جزاء یا سزا پا سکے۔ لہذا ابھی بھی وقت ہے واپس چلتے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں