میرا نام شہزاد احمد ہے میرا تعلق ضلع کوٹلی سے ہے میں نے ایک متوسط طبقے میں آنکھ کھولی میں نے زندگی میں بہت سے نشیب و فراز دیکھے کچھ تو دوستوں کی صفوں میں چھپے دشمن دیکھے اور کچھ دوشمنوں کی صفوں میں چھپے دوست دیکھے میرا یہ نشست لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ میری زندگی میں بہت ہی اتار چڑھاو آئے تو ایک دوست کے توسط سے میرابھی فرض بنتا ہے کہ اپنے تجربات جو اس زندگی اور معاشرے نے میرے ساتھ کیے وہ اس کے متعلق گفت و شنید ہو سکے خیر آتے ہیں میرا تعلیمی سفر میرپور شہر کے پوش ایریا کےعقب میں واقع گولڈن سپیرو سکول اینڈ کالج سسٹم سے ہوا۔باقی بہن بھاہیوں سے قدرے بہتر تھا تو گھر والوں کو لگا کہ یہ کچھ کرے گا زندگی میں خیر وقت کا پہیہ آہستہ آہستہ چلتا رہا اور میں نے میڑک کے اینول پیپر بھی دے دیے آبائی گاؤں کوٹلی آزاد کشمیر آ گیا دو تین مہینے میں نے رشتہ داروں کے ساتھ ملنے ملانے میں ہی گزار دیےکزنز لوگ مجھ کو دیکھ کے رشک کرتے کہ تم میرپور شہر میں رہتے ہو منی لندن اشیاء ضروریات کی تمام چیزیں بآسانی دستیاب ہوتی ہیں میں اپنے گھر والوں اور رشتہ داروں سمیت سب کی آنکھوں کا تارا ہوتا تھا جیسے تیسے کر کے وہ دن آن پہنچا جس دن کا مجھ سمیت سب طالبعلم کو بے صبری سے انتظار تھااللہ تعالیٰ کے فضل کرم اور والدین کی دعاؤں سے میں نے میٹرک میں ہائی فرسٹ ڈویژن لی مگر میرے گھر والوں نے خوشی کا اظہار گرمجوشی سے نہیں کیا انکا قصور بھی نہیں کیونکہ انہوں نے مجھ سے توقعات ہی کافی زیادہ لگائی ہوئی تھیں خیر گھر والوں نے میرا سکول تبدیل کروا دیا اور مجھے میرپور شہر کے ایک اور مہنگے اور زبردست سکول کشمیر ماڈل کالج میں داخلہ مل گیا ادھر کے پرنسپل صاحب نے مجھے اسکالرشپ دے دی ماہانہ وظیفہ لگا دیا اور میری فیس بھی معاف کر دی کالج کے دوسرے لڑکے جب مجھے دیکھتے تو انکو مجھ سے جیلسی ہوتی کہ ہم لوگ اتنی زیادہ فیسیں دے رہے ہیں جبکہ یہ بلکل ہی فری ہے خیر اس بات سے میں انکو اور تنگ کرتا حتی کہ میرے اندر اکڑ اور غرور آ گیا کیونکہ کے ایم سی کے اساتذہ مجھ کو میرے نام سے مخاطب کرتے تھے تو یہ میرے لیے ایک اعزاز سے کم بلکل بھی نہیں تھا میرے اندر بہت منفی تبدیلیاں آنا شروع ہو گئی میں جب بھی کوٹلی جاتا اپنے کزنز کو خود سے کمتر سمجھتا اور انکا مزاق اڑاتا اور میرے گھر والے میرے اس بگڑے رویے کو دیکھ کر حیران ہوتے مگر ایک حد تک۔ انکے نزدیک میرے رویے میں تبدیلی میری بلوغت کی وجہ سے ہے اسی طرح دن رات گزرتے گے میرے اندر منفی پہلوؤوں مضبوط سے مضبوط تر ہوتے چلے گئے میں نے ایف ایس سی پارٹ اول میں 80فیصد نمبر لیے جو کہ بہت ہی زبردست تھے گھر والوں سمیت میرے کالج اساتذہ اور پرنسپل بہت خوش تھے اسی طرح دوسرا سال بھی میں محنت کرتا رہا میرا خواب تھا کہ میں ڈاکٹر بنوں اسی طرح سال دوم کا نتیجہ بھی آ گیا اور میں نے ضلع بھر میں ساتویں پوزیشن لی گھر والے بہت خوش تھے مٹھائیاں تقسیم کی گئیں میری کامیابی پر میں اب انٹری ٹیسٹ کی تیاری کرنا شروع کر دی دل لگا کر محنت کی بدقسمتی سے میرٹ پر سات سے آٹھ جگہ اپلائی کیا مگر کامیاب نہیں ہو سکا سیلف پر بآسانی داخلہ مل رہا تھا مگر ہمارے اتنے وسائل ہی نہیں تھے کہ کچھ کر سکتا خیر میں بلکل ہی مایوس ہو گیا تین سے چار مہینے تو میں گھر سے ہی باہر نہیں نکلا میں وآپس کوٹلی آ گیا تھا جب سے ایف ایس سی کی تھی۔ سارا سرا دن میرا بیڈ کے اوپر لیٹے ہی گزر جاتا پہلے پہل گھر والوں نے مجھے سمجھایا کہ ڈاکٹری ہی سب کچھ نہیں ہوتی تم کسی اور فیلڈ کا انتخاب کرو میں گھر والوں کی باتیں ایک کان سے سنتا دوسرے سے نکال دیتا اسی طرح دو سال گزر گے میرا ذہن بھی کمزور ہونا شروع ہو گیا تو بھائی دوبئی سے پکے پکے وآپس آ گے انکی کمپنی بند ہو گئی بھائی نے بولا کچھ کماؤ ورنہ گھر سے نکل جاؤ میں نے گھر چھوڑ دیا اور میرپور آ گیا ادھر مجھے ایک شفیق استاد ملے سر عزیز صاحب انھوں نے میری ساری کہانی سنی مجھے موٹیویٹ کرتے رہتے ایک بات انکی مجھے آج تک نہیں بھولی وہ کہتے کہ شہزاد پتر وہ کھیت کبھی بھی اچھی فصل کاشت نہیں کر سکتے اگر ان میں ہل کی سختی برداشت کرنے کی ہمت نہ ہو اور نہ ہی ایک پتھر خوبصورت مورت بن سکتا ہے اگر اسکے اندر چھینی اور ہتھوڑے کی مار برداشت کرنے کی ہمت ہو۔ اسی طرح مجھے انکی باتوں سے کافی موٹیویشن ملتی اسی طرح میں نے پرائیویٹ کالج پاک کشمیر انسٹی ٹیوٹ آف کمپیوٹر سائنسزمیں پڑھانا شروع کر دیا اور ساتھ ساتھ پڑھاہی بھی شروع کر دی وقت اتنی برق رفتاری سے گزرا کے کب میں نے ایم ایس سی باٹنی مکمل کر لی مجھے سمجھ ہی نہیں آئی کشمیر ماڈل کالج میں بائیو لوجی لیکچرار کی آسامی خالی تھی میں نے اپلائی کر دیا ٹیسٹ انٹرویو اچھا ہو گیا ماشاء اللہ سے انکی سیلری بھی پر کشش ہے میں اب بھی کوشش میں ہوں کہ گورنمنٹ سیکٹر میں جاب ہوجائے آپ قارئین سے التماس ہے بندہ نا چیز کو دعاؤں میں یاد رکھیے گا۔
179