175

آپریشن کا نام صندور رکھنا ایک افسوسناک اور حساس معاملہ

صندور صرف ایک زینت نہیں، بلکہ ہندو مذہب میں عورت کی اپنے شوہر سے وفاداری، وابستگی اور احترام کا ایک مقدس نشان ہے۔ یہ روایت بھارت تک محدود نہیں، پاکستان میں بھی ہندو خواتین اسی جذبے اور وقار کے ساتھ صندور کا استعمال کرتی ہیں۔ ہمارے ملک میں رہنے والی ہندو عورتیں، جو پاکستان کی بیٹیاں ہیں، صندور کے ذریعے نہ صرف اپنے شوہر کی لمبی عمر کی دعائیں کرتی ہیں بلکہ ہماری قوم کے شانہ بشانہ ملک کی ترقی اور سلامتی میں بھی اپنا کردار ادا کر رہی ہیں۔

ایسے میں بھارت کی جانب سے ایک فوجی آپریشن کو “آپریشن صندور” کا نام دینا نہایت افسوسناک اور قابلِ مذمت عمل ہے۔ یہ ایک مقدس مذہبی علامت کو جنگی مقاصد سے جوڑ کر اس کی توہین کرنے کے مترادف ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا صندور صرف بھارت کی ہندو عورتوں سے وابستہ ہے؟ کیا پاکستان میں رہنے والی ہندو عورتیں اس کی حقدار نہیں؟ کیا دنیا بھر کی ان خواتین کی قربانیوں اور عبادات کی کوئی اہمیت نہیں جن کے لیے صندور صرف ایک رسم نہیں، بلکہ محبت، وابستگی اور روحانی رشتہ ہے؟

پاکستان ایک ایسا ملک ہے جو اپنے تمام شہریوں — چاہے وہ مسلمان ہوں، ہندو، عیسائی یا کسی اور مذہب سے تعلق رکھتے ہوں . کو برابری کا درجہ دیتا ہے۔ یہاں صندور لگانے والی عورتیں بھی اتنی ہی محترم اور باوقار ہیں جتنی کوئی اور۔

ہم ہندوستان کی جانب سے اس مذہبی علامت کو ایک جنگی آپریشن کے ساتھ جوڑنے کی شدید مذمت کرتے ہیں۔ یہ نہ صرف مذہبی جذبات کی توہین ہے بلکہ بین المذاہب احترام اور ہم آہنگی کے اصولوں کے بھی خلاف ہے۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں