آواز پوٹھوہار ماسٹر سعید مدنی

کبڈی کا دنگل ہو یا والی بال کا میچ کرکٹ ٹورنامنٹ ہو یا سیاسی جلسہ سعید مدنی کی آواز کے بغیر نامکمل سمجھا جاتا ہے۔شاید یہی وجہ ہے کہ لوگ اسے آواز پوٹھوہارکے نام سے پکارتے ہیں۔ ماسٹر سعید مدنی کا تعلق یونین کونسل سموٹ سے ہے۔کہتے ہیں کہ قدرت جب کسی پر مہربان ہوتی ہے تو اسے ایسی صلاحیت عطا کردیتی ہے جو عام لو گوں سے منفرد ہو جاتی ہے۔ماسٹر سعید مدنی کا تعلق ایک غریب گھرانے سے ہے۔ وقت کی بے رحم موجوں نے اعلیٰ تعلیم تو نہ حاصل کر نے دی مگر حالات کی سنگینیوں کا مردانہ وار مقابلہ کر نے کاہنر سکھا دیا۔نامساعد حالات کی باوجود خو داری کو اپنا شیوہ بنایا۔کمیونٹی کالج سے انٹر کرنے کے ساتھ ہی فکر معاش ستانہ شروع ہو گئی۔ اپنے اندر چھپے فن کو بروئے کار لانے کے لیے کئی کئی گھنٹے تماشائی بن کر سیکھناپڑا۔ اس آس پہ کہ دو منٹ مل جائیں۔ دیر تک بیٹھے رہنا کسی اذیت سے کم نہ تھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے قدرت کچھ یوں مہربان ہوئی کہ ماسٹر سعید مدنی کی آواز کا جادو علاقے بھر میں سر چڑھ کر بولنے لگا۔دیکھتے ہی دیکھتے آواز کا طوطی نہ صرف کلر سیداں بلکہ پورے خطہ پوٹھوہار میں بولنے لگا۔اپنے منفرد انداز سے آواز کا جادو جگایا۔علاقے کا کوئی بھی ثقافتی ایونٹ ہو کبڈی کا دنگل ہو یا کرکٹ ٹورنامنٹ،والی بال کا میچ ہو یا ثقافتی میلہ سعید مدنی کی آواز سے گونج اٹھتا ہے، منفرد انداز میں پوٹھوہاری کمنڑی کا ایسا جادو کہ ہر طفل جواں داد دینے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ مرجھائے چہروں پر مسکراہٹیں بکھیرنااس کا مشن ہو تا ہے۔ہزاروں چہروں پر بیک وقت مسکراہٹیں بکھیرنا اس کے فن کا ایک خاصہ ہے۔ جو مہنگائی کی ستائی عوام کے لیے چند لمحوں کی مسکراہٹ ہے۔ یاس کے اس دور میں جہاں ہر شخص پریشان ہے وہاں ایسی مسکراہٹیں بکھیرنے والے ہوا کے کسی تازہ جھونکے سے کم نہیں۔ان کا پڑھا ہوا شعر جو زبان زد عام ہے کہ
انہی پتھروں پہ چل کر آ سکوتو آنا
میرے گھر کے راستے میں کوئی کہکشاں نہیں

اپنا تبصرہ بھیجیں