آواز پوٹھوہار راجہ شفیق عرف گجر کا سفاکفانہ قتل

”لوکو، لوکو’ بڑا مقابلہ تے تگڑا میچ’ اج سوہنا شغل ہوسی” یہ آواز گونجتی پوٹھوہار کے ہر والی بال ٹورنامنٹ یا چیلنج میچ میں۔ یہ آواز نہ صرف پوٹھوہار میں گونجتی تھی بلکہ اسکی گونج کشمیر و کوہسار کی وادیوں میں سنائی دیتی اس آواز کی گونج سے خیبرپختونخوا بھی محظوظ ہوتا تھا۔ یہ آواز تھی پوٹھوہار کی، یہ آواز پوٹھوہاری کی، یہ آواز تھی پیار و محبت کی اور پاک تھی یہ آواز نفرت و نفاق سے مگر یہ آواز ظلم و بربریت کیساتھ خاموش کروا دی گئی اور پوٹھوہار اپنی اک پہچان سے ہاتھ دھو بیٹھا۔ اس آواز کا مالک میرے گاؤں کا ہونہار سپوت راجہ محمد شفیق جنجوعہ تھا جو ”گجر” کی عرفیت سے مشہور ہوا۔ راجہ محمد شفیق گجر نندنہ جٹال کے راجہ ملازم حسین کے گھر میں تیسرے نمبر پر پیدا ہوا۔ شفیق گجر نے تعلیم ادھوری چھوڑ کر محنت مزدوری شروع کردی اس دوران پوٹھوہاری شعراء کے شعر بھی یاد کرتا رہا۔یہ یاد کردہ شعر پیش کرنے کا شوق اسے صداکاری کے میدان میں لے گیا۔ شفیق گجر نے ثقافتی و سماجی پروگراموں کی میزبانی پوٹھوہاری زبان میں کی اور کھیل کے میدانوں (والی بال، فٹ بال، کرکٹ،کبڈی وغیرہ) میں بطور کمنٹیٹر بھی جانے لگا

۔ یوں منزل بہ منزل سفر طے کرتے ہوئے شفیق گجر شہرت کی بلندیوں کی جانب گامزن ہوا۔ بالخصوص والی بال کے میدان اس کی خاص پہچان بنے۔ اسی خصوصی محبت و جذبہ کی وجہ سے والی بال والوں کی جانب سے شفیق گجر کو ”آواز پوٹھوہار” کا خطاب ملا۔ جب یہ آواز پوٹھوہار سے دوسرے صوبوں میں سنی جانے لگی تو پھر شفیق گجر ”نیشنل کمنٹیٹر” کی حیثیت سے پہچانا جانے لگا۔ کچھ عرصہ قبل جب والی بال ایسوسی ایشن راولپنڈی ڈویژن کی تنظیم نو ہوئی تو والی بال کے عاشق اس کمنٹیٹر کو راولپنڈی ڈویژن کا سیکرٹری اطلاعات بھی بنایا گیا۔ شفیق گجر والی بال کے ملک بھر کے کھلاڑیوں کو مکمل جانتا تھا۔ بطور کمنٹیٹر اس کو نام پوچھنے کے لیئے کسی معاونت کی ضرورت نہیں ہوتی تھی۔ بالخصوص والی بال کی ہر دل عزیز شخصیت ہونے کے ناطے جب اس کے سفاکانہ قتل کی خبر جنگل میں آگ کی طرح پھیلی تو پشاور میں جاری صوبائی والی بال ٹورنامنٹ کے فائنل میں شفیق گجر کے لیئے خصوصی دعا و تلاوت کا اہتمام کیا گیا جبکہ کھلاڑیوں و شائقین نے کھڑے ہوکر بھی خراج تحسین پیش کیا۔ اب شفیق گجر کے افسوسناک قتل کے حوالہ سے قارئین کو کچھ تفصیلات بتاتا ہوں

۔ گزشتہ جمعہ کی شب مغرب کے آس پاس راجہ شفیق گجر اپنے دوست زاہد الیاس کو اسکے گھر چھوڑنے گیا پھر شفیق گجر کا ایک بار محمد سلام سے رابطہ ہوا اور پھر کسی سے بات نہ ہوئی۔ دوسرے دن دوست احباب گھر والے شفیق کو تلاش کرتے رہے اور شام کو مایوس ہوکر تھانے گمشدگی کی اطلاع دینے گئے وہاں پر شفیق گجر کا موٹر سائیکل موجود تھا درخواست دینے کے بعد جب موٹر سائیکل دیکھا گیا تو تھانے میں متعلقہ افسران کو بتایا گیایوں پولیس فورا حرکت میں آگئی۔ موٹر سائیکل کی بابت پولیس نے لواحقین کو بتایا کہ اطلاع ملی تھی کہ اک لاوارث موٹر سائیکل ہدوالہ گاؤں کے تالاب میں گرا ہوا ہے۔ جب لواحقین نے موٹر سائیکل پہچان لیا تو تھانہ انچارج سید سبطین الحسنین اور انکی ٹیم کو معاملہ سنگین لگا۔ پولیس نے پھر اپنی سرچ تیز کردی۔پولیس کچھ ہیومن ریسورسز اور جیو فینسنگ کے ذریعے سوموار کے روز شفیق کی میت کو شاہ باغ کے نواحی گاؤں چھجھیالہ کے اک کنوئیں سے برآمد کرنے میں کامیاب ہوگئی۔ نعش کو تین وزنی تعمیراتی بلاکوں کیساتھ باندھ کر کنویں میں پھینکا گیا تھا تاکہ لاش سطح آب پر واپس نہ آجائے۔ شفیق گجر کے سر چہرے اور گلے پر چھُری وبھاری اشیاء کے متعدد نشانات موجود تھے۔

ایس ایچ او
کلرسیداں سید سبطین الحسنین کے مطابق وہ بہت جلد مجرموں کو پکڑ لیں گے اور ان سفاک و وحشی قاتلوں کو کیفرکردار تک پہنچائیں گے۔ ایس ایچ او کلر سیداں نے راقم سے بات کرتے ہوئے مزید کہا کہ ایسے قاتل پکڑنے اس لیئے بھی ضروری ہیں کہ کہیں وہ کسی اور گھر کو بھی نہ اجاڑ دیں۔ پیشہ ور مجرم بننے سے قبل ان لوگوں کی گرفتاری ہر صورت ہوگی۔ سید سبطین الحسنین نے اہلیان نندنہ جٹال اور بالخصوص نندنہ جٹال کے پولیس ملازمین (جو مختلف تھانوں میں ملازمت کر رہے ہیں) کے تعاون کو بہت سراہا جن کی کوششوں نے پولیس کے لیئے آسانیاں پیدا کیں۔ راجہ محمد شفیق کے تین بھائی اور ایک بہن ہے۔ شفیق سمیت تمام بہن بھائی شادی شدہ ہیں۔ شفیق کے والدین حیات ہیں اور دونوں بیمار ہیں والد کا دایاں بازوں بیماری کیوجہ سے کٹوانا پڑا جبکہ والدہ کے ہاتھ مکمل کام نہیں کر رہے اس مجبوری و بزرگی میں جوانسالہ بیٹے کی سفاکانہ قتل موت کا صدمہ والدین کو سہنا پڑاجوکہ ان والدین کے لئے انتہائی تکلیف دہ ہوگا۔ شفیق کی بیوہ اور دوسالہ پیاری سی بیٹی بھی ہیں

۔ آج اک ویڈیو دیکھی جس میں ناسمجھ شیرخوار بیٹی والد کے قبر کے پھولوں سے کھیل رہی تھی اس منظر نے جگرکاٹ کے رکھ دیا۔اللہ پاک مرحوم محمد شفیق کی قبر و برزخ کی منازل آسان فرمائے روز قیامت شفاعت محمد وآل محمد علیھم السلام نصیب فرمائے۔ لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے اور قاتلوں کو اس دنیا کے سامنے بھی کیفرکردار تک پہنچائے۔ آمین یارب
مشہور معروف پوٹھوہاری شاعر اور کالم نگار راجہ واجد اقبال حقیر کا آواز پوٹھوہار راجہ محمد شفیق گجر کو خراج پوٹھوہاری شاعری میں خراج تحسین
اج فیر پوٹھوہار وچ دوستاں نیں
رشتہ دوستی دا لہولہان کیتا
جو آواز پوٹھوہار وچ گونجدی سی
”لوکو لوکو” دا بند بیان کیتا
کدھرے سپ پلدے آستین وچ رئئے
جنہاں اج ساڈا بہوں زیان کیتا
واجد نگری بیدرداں شفیق راجہ
زندہ رہن جوگا اج بیجان کیتا

اپنا تبصرہ بھیجیں