آزادی کی نعمت کی قدرو قیمت

آزادی ایک نعمت ہے چاہے وہ کسی قوم کی ہوکسی فرد کی ہو‘کسی وطن کی یاکسی خطہ کی اس آزادی کی نعمت سے انسان ہی نہیں بلکہ خالق کائنات کی بنائی گئیں تمام مخلوقات لطف اٹھاتی ہیں۔ کیونکہ آزادی مدمقابل ہے قید کی۔قید میں انسان نا تو اپنی مرضی سیکھا سکتا ہے نا سوسکتا ہے نا چل پھر سکتاہے اور ناہی وہ اپنی مرضی سے مذہبی آزادی پر عمل کرتے ہوئے اپنے مذہب کا اظہار کرسکتا ہے

یہی وجہ ہے جب ہندوستان میں جہاں مسلمانوں نے ایک ہزار سال تک حکومت کی وہاں جب انگریز سامراج نے تاجرکے روپ میں 24ستمبر1599ء میں قدم رکھا ایسٹ انڈیا نامی کمپنی کھولی 1612ء میں باقاعدہ اپنا مشن شروع کیا ہندوستان نے فراغ دلی کا مظاہرہ کیایہاں سے ہی انگریز رفتہ رفتہ اپنی پکڑمضبوط کرتے گئے جس کا نتیجہ1757ء کی صورت میں ظاہرہوا انگریز اورہندوشدت پسند نے برصغیرپر اپناقبضہ جماتے ہوئے مسلمانوں کا جینا محال کردیا۔
مسلمانوں پر طرح طرح کی پابندیاں لگائیں مسلمان پرظلم وستم بربریت قتل وغارتگری کی بدترین سیاہ تاریخ رقم کی تو مسلمانوں نے علیحدگی اختیار کرنے کی تحریک چلائی۔

1782ء میں ٹیپو سلطان نے جنگیں لڑیں اس ٹیپو سلطان کی بہادری سے دشمن خوف زدہ تھا جس نے کہا تھا شیرکی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہترہے۔ ہندوستان میں ایسا ماحول بنا دیا گیا تھاکہ جو وہاں کے ظلم کے خلاف آواز بلندکرتا اس کوسرعام پھانسی دیدی جاتی یاپھرسرعام توپ کے منہ پر باندھ کراسے اڑا دیاجاتا۔ انگریزنے قابض ہونے کے بعد قتل وغارت کا بازار گرم کیا سینکڑوں مسلمانوں کو پھانسی پرلٹکایا۔خاص کرعلماء کرام اور عظیم مسلمان لیڈروں کوٹارگٹ کیاگیا بے شماربے گناہ مسلمانوں کوقیدی بناکران پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑے گئے۔ مسلمانوں کو چن چن کر شہیدکیاگیامگرکسی بھی مسلمان نے اپنے عزم سے اپنی ثابت قدمی سے دستبرداری کا اعلان نہیں کیا۔

اسی سلسلہ کی ایک کڑی ملتی ہے 1857ء کی جنگ آزادی میں یہ سلسلہ چلتا رہا۔ 1919تک 1922اور 1930ء میں مختلف تحاریک چلتی رہی جن میں مسلمان جام شہادت بھی نوش کرتے رہے اگرچہ مسلمانوں کے پاس ظاہری اسباب ناتھے مال ودولت کی قلت تھی‘ مجاہدین کی کمی تھی اسلحہ ناہونے کے برابرتھالیکن اتفاق واتحاد کی فضاء قائم تھی اللہ پر بھروسہ تھا آزادی کاجنون سوارتھا عزم ہمت جرآت وبہادری شجاعت اور استقامت کاگویا پہاڑتھے۔36 مسلم راہنماؤں نے1906میں مسلم ریاست کا مطالبہ کردیا 29 دسمبر1930کو الہ آباد میں علامہ محمد اقبال نے علیحدگی کاتصورپیش کیاآل انڈیا مسلم لیگ کا34 واں اجلاس لاہور میں منعقد ہوا جس میں تمام مسلمان متحد تھے

۔1940ء میں ایک اجلاس منٹو پارک لاہور میں منعقد ہوا جس میں مسلم لیگ نے قرارداد پاکستان پیش کی جس میں آزادریاست کی بھرپور کوشش کی گئی۔مسلمانوں کے حقوق پر بات کی گئی مسلمانوں کا تحفظ مانگاگیامسلمانوں میں سیاسی شعور اجاگر کیاگیا اس جماعت کو منظم وسیاسی بنایاگیا۔بلآخر مسلمانوں اور قائد اعظم محمد علی جناح کی مشترکہ کوشش جدوجہد سیاسی بصیرت اصول پسندی اتحاد واتفاق نظریہ وسوچ صبر و تحمل سے بلندومضبوظ فیصلے اورمسلم لیگ کومتحد ومضبوظ کرنے سمیت دیگرفیصلے کی بدولت مسلمانوں کی عظیم شہادتوں اورقربانیوں کی برکت سے14 اگست 1947 کو دنیا کہ نقشے پر پاکستان کے نام سے آزاد خودمختار اسلامی ریاست کے نام پر اسلامی ملک
پاکستان ابھر کردنیاکہ سامنے آیاجب یہ پاکستان کا وجود سامنے آیاتو ہندوستان سے مسلمانوں نے اپنا کاروبار مال ودولت جائیداد سب کچھ قربان کرکہ ارض پاک کی طرف خالی ہاتھ ننگے پاؤں بے سرو سامان کی حالت میں ہجرت شروع کردی راستے میں ان مہاجرین کو بے شمار مصائب کاسامناکرناپڑا جب یہ مسلمان قافلہ در قافلہ کی صورت میں ہجرت کررہے تھے تو راستہ میں مسلمانوں کو پاکستان ہجرت کرنے کی خوشی میں بے پناہ تکالیف بدترین مظالم کاسامنا کرنا پڑا۔
اگریوں کہا جائے کہ مسلمان آگ وخون کادریاعبورکرکہ پاکستان پہنچے تو بجا ہوگا لاکھوں مہاجرین پاکستان کاخون سستے پانی کی طرح بہادیاگیا نوجوانوں اور ضعیف العمر اشخاص کو گاجر مولی کی طرح کاٹ کر شہیدکردیاگیا ہر طرف راستہ میں لاشیں ہی لاشیں نظر آرہی تھی صدیوں سے ایک ساتھ ایک ہی ملک میں رہنے والوں نے مسلمانوں کے آزادی کے نعرے اور نظریہ کے بلند ہوتے ہی ان مسلمانوں کو خون میں نہلانا شروع کردیاایسے افسوس ناک واقعات سامنے آئے جس پر قابو پانا پولیس اور فوج کے بس کی بات ناتھی۔
برطانوی راج اورہندوشدت سوچ نے ہزاروں مسلمانوں کو قیدکرکے ان پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑے خواتین کو زبردستی اٹھا کر اپنے ساتھ لے گئے ان کی عزتیں تار تارکیں ہزاروں خواتین نے اپنی عزت محفوظ کرنے کیلئے ہندو کے ہاتھوں قیدہونے کی بجائے موت کوترجیح دیکرغلامی سے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے آزاد ہوگئیں اس ظلم وستم کی سیاہ تاریخ رقم کرنے میں انگریز ہندو اور سکھ ایک ہی صف میں کھڑے تھے ان کے سامنے صرف ایک ہی نشانہ تھا ہجرت کرنے والامسلمان جو لوگ پیدل تھے یا پھر سواریوں پرسوار تھے موت سائیکی طرح ان کا پیچھا کررہی تھی ہرقدم پر ظالم کے قتل کا خوف قائم تھا حتی کہ جس ریل گاڑی میں لوگ سوار ہوکرآئے جب قائد اعظم نے اپنے ساتھیوں سمیت ان کا استقبال کرنے پاک سرزمین پر پہنچے تو وہ ریل بھی مسلمانوں کے خون سے رنگین ہوگئی تھی آج ہم ان اپنے آباؤ اجداد کی لازوال بے مثال قربانیوں کو بھول چکے ہیں۔
اسی لئے تو اس نعمت پر شکر اداء کرنے ان کی قربانیوں کو خراج عقیدت پیش کرنے کی بجائے ایسے طور طریقے رائج کرچکے ہیں جن کا ان قربانیوں کے ساتھ دور دور تک کوئی تعلق نہیں آزادی کی خوشی میں آزادی کانعرہ لگا کر اسی محفل میں مسلمانوں کے قاتل انڈیا کہ گانے اونچی آواز میں لگائے جاتے ہیں صبح سے رات تک بلند وبالا آواز میں اذیت میں مبتلاء کرنے والے باجے ناچ گانا کے ساتھ کچھ تو اس دن آزادی کے نام پر گاڑیوں کے سیلنسر نکال کر عجیب وغریب حرکات کرتے دکھائی دیتے ہیں کیا یہ آزادی یا خوشی منانے کا طریقہ ہے ہرگزنہیں بلکہ یہ وہ فضول حرکات ہیں جن کی اجازت نا تو ملک کاآئین دیتا اورناہی اسلام ضرورت اس امرکی ہے کہ ہم اپنے آباؤاجداد کی قربانیوں ان کی جدوجہد کو یاد کرتے ہوئے ان کی قدر کریں ان کی تاریخ سے آگاہی حاصل کریں اوراللہ کی اس عظیم نعمت پر شکراداء کریں ناکہ اللہ کی عطاء کردہ عظیم نعمت پرناشکری کرتے ہوئے اپنے آباؤاجداد کی لازوال قربانیوں کا مذاق اڑائیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں