آزادی کا سورج ضرورطلوع ہوگا/پروفیسر محمد حسین

5فروری کا دن کشمیریوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے طور پر منایا جاتا ہے، اُن ہزاروں کشمیری مسلمانوں کی یاد تازہ کی جاتی ہے جنہوں نے اپنی جان تو آفرین کے سپرد کر دی لیکن کبھی ہندوؤں کی غلامی کو قبول نہیں کیا اس راہ شہادت کو چننے والوں کی تعداد سوا

لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے۔ اور اس سے بڑی تعداد معذور بھی ہو چکی ہے،کتنی ہی عفت مآب مائیں ،بہنیں اور بیٹیاں غاصب ہندوؤں کے ہاتھوں اپنے دامن کو کشمیرکی آزادی کے نام کر چکی ہیں قربانی کی یہ داستانیں پاکستان کی آزادی سے لے کر آج تک جاری وساری ہیں مقبوضہ کشمیرمیں آج بھی یوم شہداء منایا جاتا ہے جب ایک کشمیری مسلمان اذان دینے کے لیے آگے بڑھا تو ہندو فوجی نے اسے گولی مار کر شہید کر دیا اب ایک اور کشمیری مسلما ن آگے بڑھتا ہے

اور اذان کا دوسرا کلمہ پرھتا ہے تو ہندو فوجی کی گولی اسے بھی گرادیتی ہے اسی طرح ایک ایک کر کے کشمیری مسلمان آگے آتے رہے اور اذان کے کلمات پڑھتے گئے اور شہادت سے سرفراز ہوتے گئے اذان مکمل ہوئی تو بائیس کشمیری مسلمان اپنی شہادت کا نذرانہ پیش کر چکے تھے دنیا نے دیکھا کہ لاکھوں کشمیری مسلمان جمع ہو کر یہ نعرہ لگاتے ہیں اور اقوام عالم کے سامنے پیغام رکھتے ہیں’’پاکستان سے رشتہ کیا.

….. لاالہٰ الااللہ‘‘انڈین آرمی کشمیری مسلمانوں پر گولیاں برساتی ہے اور آنسوگیس کے شیل پھینکتی ہے اور کشمیری مسلمان اس کا مقابلہ پتھروں اور غلیلوں سے کرتے ہیں وہ اس با ت پر یقین رکھتے ہیں کہ سسک سسک کر جان دینے سے بہتر ہے کہ بہادری سے لڑتے ہوئے جان اللہ کے سپرد کر کے اپنا نام شہیدوں کی فہرست میں لکھوا لیں صرف وادی کے اڑتیس قبرستانوں میں2 ہزارسے زائد گمنام قبریں ہیں انسانی حقوق کی تنظیموں کا دعویٰ ہے کہ پچھلے 24 سالوں کے دوران جو ہزاروں کی تعدا د میں لوگ لا پتہ ہوئے ہیں ان میں سے بیشتر کو ان قبروں میں دفن کیا گیا

آج تک لا پتہ ہونے والوں کے لواحقین اپنے پیاروں کی تلاش میں مارے مارے پھرتے ہیں انہیں کیا خبر کہ ان کے پیارے غاصب فوج کے ہاتھوں شہید ہو کرمنوں مٹی کے نیچے دفن ہو چکے ہیں انہیں معلوم نہیں کہ ہمارے پیاروں کو کس طرح شہید کیا گیا اور کس طرح ٹارچر کیاگیااور طرح طرح کے ظلم کی بھٹیوں سے گزارا گیا مغرب، امریکہ اور اسرائیل آگے بڑھ بڑھ کی انڈیا کے ظلم وستم کی حمایت کرتے ہیں امریکہ کے سکول میں کچھ بچے قتل ہو جائیں تو امریکہ کا صدر رو پڑتا ہے لیکن انکے نزدیک ایک پوری قوم کے انسانی حقوق کو ئی حثییت نہیں رکھتے کشمیر میں ماورائے عدالت قتل ہوتے ہیں لیکن وہ انہیں دکھائی نہیں دیتے ان کے ہاں حقوق کی خلاف رزی کا اطلاق کتوں پر تو ہو سکتا ہے لیکن کشمیرکے مسلمانوں پر نہیں ہو سکتا ، سوچنے کی با ت ہے کہ کشمیری مسلمانوں پر جوقیامت خیز مظالم ڈھائے جا رہے ہیں آخر اس کی وجہ کیا ہے اس کی صرف ایک ہی وجہ ہے

کہ کشمیری مسلمان پاکستان کے ساتھ الحاق چاہتے ہیں کشمیر ہماری شہ رگ کی حثییت رکھتا ہے، ہمیں کشمیر کو اتنی ہی اہمیت دینی جتنی کسی جسم کے لیے شہ رگ کی ہوتی ہے ہندوؤں کی پاکستان دشمن ذہنیت سے کونسا پاکستانی نا آشنا ہے جس نے 1971میں پاکستان کو دولخت کیا اب پاکستان کی نظریاتی سرحدوں پر حملہ آور ہے وہ پاکستان کو معاشی طور پر کمزرو کرنا چاہتاہے، دنیا سے تنہا کر کے افغانستان میں پھیلائے گئے جاسوسی جال کے زریعے خیبر پختونخواہ،جنوبی پنجاب، بلوچستان اور کراچی کے اندرانارکی کو ہوا دے کر مسلمان کومسلمان سے لڑواکر اور افواج پاکستان کو بدنام کر کے پاکستان کو اندر سے دیمک کی طرح چا ٹنا چاہتاہے

ایک بہت بڑا وار جو کشمیرکی طرف ہمارے اوپر کر رہا ہے وہ دوستی کے روپ میں سندھ طاس معاہدے کے تحت پاکستان کے حصے میںآنے والے دریاؤں پر ڈیم بنا کر اورٹنل کے ذریعے پانی کا رُخ پھیر کر پاکستان کو بنجر بنانے کی سازش پر عمل کر رہا ہے،ذراسوچئے !کہ اگر وہ اسی طرح ڈیم بناتا رہا اور ہمارے دریاؤں کو اسی طرح خشک کرتا رہا تو آنیوالے چند سالوں میں منظر نامہ کیا بنے گا؟ ہما ری زمین اناج، غلہ، پھل اور سبزیاں اُگانا چھوڑ دے گی اور ہم انڈیا سے بھیک مانگنے پر مجبور ہوں گے ہمیں کشمیر کی جنگ کو اپنی جنگ سمجھنا ہو گا لیکن افسوس ہمارے ہا ں ایک ایسا طبقہ ہے جو باہمی اعتماد پر بھارت سے دوستی کی پینگیں بڑھانے میں دلچسپی رکھتا ہے اور وہ بھارت کے کھلے کلچر کا دلدادہ ہے اسی طرح غیر نظریاتی تاجروں کا طبقہ جو ہر قیمت پر دولت کمانے کا عادی ہو چکا ہے انہیں بھارتی منڈیوں تک رسائی دیوانہ بنائے ہوئے ہے کشمیر پالیسی میں جو تبدیلی لائی گئی ہے

وہ پاکستان کے لیے انتہائی خطرناک ہیں ہمیں ہر قیمت پر اسے واپس اپنے مقام پر لانا ہو گا قوم کے سربراہان پرفرض ہے وہ اس صور تحال کا جائزہ لیں لائن آف کنڑول پر کشیدگی کی بھی عجب صورتحال ہے انڈیا کی طرف سے روزانہ لائن آف کنڑول کی خلاف روزی کی جارہی ہے اور دہی علاقوں پر گولہ باری کر کے نہتے عوام کو شہید اور معذور کیا جا رہا ہے سفارتکاری کے زریعے بھارت نے پوری دنیا کے سامنے اپنی مظلومیت کا ڈھنڈورا پیٹا اور اقوام عالم کو اپنے ساتھ ملایا اور مقبوضہ کشمیر کی آزادی کی جنگ کو دہشت گردی کا راگ الاپ کر دراندازی سے بدل لیا اور پاکستان کو دنیا کی نظروں میں مجرم بنا دیا گیایہ سب کچھ پاکستانی سفارت کاروں کی ناکامی ہے

لیکن بدقسمتی سے نہ تو اس کی جانب تووجہ دی گئی اور نہ ہی ذمہ داروں سے پوچھ گچھ کی گئی ہمارے سفارت کاروں کو دنیا پر واضح کرنا چاہیے کہ جدوجہد آزادی اور دہشت گردی میں فرق ہے اور دوسری بات یہ ہے کہ انسانی حقوق کا شور پوری دنیا میں بپاہے اس کا اطلاق کشمیریوں پرکیوں نہیں ہوتا؟ ہمارے سفارت کاروں کو چاہیے کہ وہ ساری دنیا پر کشمیر میں ہونے والے مظالم کو واضح کریں اور بھارت کی دہشت گردی نمایاں کر کے دکھائیں انڈیا انتہا پسند تنظیموں کو پالتا ہے اور جوان کر تا ہے اور کس طرح دہشت گرد ہندوؤں کے کیمپ پورے تحفظ کے ساتھ چل رہے ہیں جنہیں ان کی تنظیمیں اور سیاسی پارٹیاں بھر پور سپورٹ کرتی ہیں یہاں سے تیار ہو کر انتہا پسند انڈیا اور کشمیر میں مسلمانوں کاقتل عام کرتے ہیں

جب کہ ہم خود حقیقی آزادی کے متوالوں اوررکھوالوں کو دہشت گرد قراردے رہے ہیں ہمیں سفارت کاری کے زور پر انڈیا کو دہشت گرد ملک قراردلوانا چاہئیے ذراتصور کیجئے کہ یہ کیسی ستم ظریفی ہے کہ سیز فائر اور ہمارے موقف میں نرمی سے فائدہ اٹھا کرلائن آ ف کنٹرول پر دیوار برہمن بنا کہ کشمیر کودو حصوں میں تقسیم کر دیاگیا اقوام عالم کا فیصلہ کشمیریوں کے حق خود داریت اور کشمیرمیں اقوام متحدہ کے زیرانتظام رائے شماری کو لازم ٹھہرانا ہے ہم نے اس موقف سے انحراف کیا جو اصل میں اقوام متحدہ کا موقف تھا اور جس کی تائید وتوثیق کرنے والوں میں بھارت بھی شامل تھا کشمیری عوام اور مجاہدین تو اخلاقی قوانین کے عین مطا بق اپنی تحریک چلارہے ہیں انہوں نے بھارت کے علاقہ میں کوئی دھماکہ نہیں کیا اس کے برعکس بھارت ان کے علاقے میں دہشت گردی کر رہاہے آزادی کی جدوجہد کرنے والے کشمیری عوام پُر امن ہیں وہ دشمن کی خواتین اور بچوں کو اغوا نہیں کرتے انہیں آگ میں زندہ نہیں جلاتے انکے پاؤں نہیں کاٹتے کشمیری پرُ امن ہیں اوران کی سرزمین پر ایک دن ضرور آزادی کا سورج طلوع ہوگا اور ضرور طلوع ہوگا (انشاء اللہ){jcomments on}

اپنا تبصرہ بھیجیں