آزادی مبارک

تحریر۔عثمان ابرار

آج دن سے اس کے سر میں شدید درد تھا شدید حبس،گرم موسم ہوا بند تھی عجیب سا ماحول تھا یا صرف اسے محسوس ہورہا تھا۔ اچانک اس کے کانوں میں باجے کی آواز پاں پاں پڑی جس نے اس کے درد کو نہ صرف بڑھادیابلکہ اس کی سوچوں کا تسلسل ماضی سے جوڑدیا۔1947ء ٹرین کی آواز جیسے جیسے قریب آرہی تھی اس کے دل کی دھڑکن تیز ہوتی جارہی تھی۔وہ آج اماں ابا اور چھوٹے دو بہن بھائیوں کے ساتھ پاکستان جارہا تھا۔انجانی سی خوشی بھی تھی اور دل میں کچھ خوف سا بھی تھا جیسے کچھ انہونی ہونے والی ہو۔ پھر ٹرین بالکل قریب آگئی اور جنکشن پر رک گئی۔ وہ بھی اماں ابا کے ساتھ سوار ہوا۔ چھوٹے عمر کو ابا نے اور چھوٹی عمرانہ کو اماں نے اس طرح مضبوطی سے سینے سے لگا رکھا تھا جیسے آخری بار بچوں سے مل رہے ہوں۔

ریل گاڑی میں سوار ہونے کے بعد گاڑی نے پاں پاں کی آواز نکالی اور خراماں خراماں چل پڑی۔ وہ راستے میں ہر آنے والے منظر کو الوداعی نظروں سے دیکھ رہا تھا۔ اچانک ریل گاڑی رک گئی جیسے کسی نے زبردستی رکوایا ہو۔ اس نے ابا سے پوچھنے کی کوشش کی تو ابا نے منہ پر انگلی رکھ کر خاموشی اختیار کرنے کا حکم دیا اور گاڑی کی نشست کے نیچے اس کو دھکیل دیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے چند افراد ہاتھوں میں خنجر لیے اسکی اماں کے قریب آیاابا چیخا کہ رک جاؤ مگر ایک لمبے قد والے سکھ نے اماں سے عمرانہ کو چھینا اور دوسرے سکھ کی طرف اچھال دیا اس نے اپنا خنجر آگے کیا اور عمرانہ کے سینے سے پار ہوگیا عمرانہ کی چیخ بلند ہوئی اور خون کا فوارہ اچھل کر اماں کے منہ پر گرا جب تک ابا کے ہاتھ سے عمر کو کھینچ کر ہوا میں اچھالا جا چکا تھا۔ نیچے خنجر نے عمر کا استقبال کیا اور ہمیشہ کے لیے ابدی نیند سوگیا اماں کے بازو پر سکھ بلوائی نے خنجر مار کر کہا یہ لو آزادی۔

وہ سب کچھ اس نے دیکھا جی چاہا چیخے سکھ کو پکڑے مگر ابا کے آخری حکم اور آخری خواہش کی وجہ سے وہیں دبکا رہا۔ اماں بچوں کی شہادت اور بازو کا زخم برداشت نہ کرسکیں اور اسی وقت داغ مفارقت دے گئیں ابا کو سکھ نے گردن پر خنجر مار کر شہید کردیا۔دیگر چند بچوں کو بھی شہید کرنے کے بعد ریل گاڑی کو چلنے کی اجازت ملی۔ ماؤں کی اجڑی گود لٹی عزت کے ساتھ اس بار جو ریل گاڑی کی آواز پاں پاں پاں نکلی اس آواز نے اس کا دل چیر کر رکھ دیا سر میں شدید درد کی وجہ سے بے ہوشی غالب آگئی جب آنکھ کھلی تو خود کو پاکستان میں مہاجر کیمپ میں موجود پایا اللہ کا شکر ادا کیا۔ہندؤؤں اور سکھوں کے مظالم سے آزادی کی خوشی کی وجہ سے چھوٹے بہن بھائیوں کو ذبح ہوتے دیکھ کر جو غم تھا وہ بھول گیا مگر ہر سال اگست میں اس کا غم تازہ ہوجاتا تھا آج بھی گلی میں بچوں کے منہ میں موجود باجوں کی پاں پاں سے وہ یہی محسوس کرتا ہے جیسے پھر بلوائی آکر اس کے بہن بھائیوں کو ذبح کریں گے اور ابا اماں کو شہید کرکے بے خوف آواز میں کہیں گے۔”یہ لو آزادی مبارک

اپنا تبصرہ بھیجیں