آزادی ایک نعمت ہے

ماہ صیام کی پر نور ساعتیں دھیرے دھیرے گزر رہی تھی نار جہنم سے رہائی کاعشرہ تھا۔اللہ رب العزت نے اپنے بندوں کی گریہ زاری کو دیکھا۔ان کی آہ سحر گاہی کو سنا۔ان کے گالوں پر پھیلتے ہوئے آنسوؤں کو دیکھا تویہ اعلان فرمایا کی ان سب کو نار جہنم سے آزاد کردیا جائے۔لیکن کچھ مسلمانوں کے ہاتھ ابھی بھی بارگاہ الٰہی میں فریاد کر رہے تھے مولا ہمیں اس بستی سے نکال جس کے رہنے والے سخت ظالم ہیں اورہماری غیب سے مدد فرما۔پھر وہ ذات جو (اقرب من حبل الورید) ہے اس نے سنا کی یہ لوگ احکامات کی اطاعت کے لیے الگ وطن مانگ رہے ہیں تو پھر مشیت ایزدی جوش میں آئی اور اس نے لیلتہ القدر کی عظیم رات اور جمعہ الوداع کے مقدس ترین دن کے موقع پر اپنے بندوں کو ایک عظیم الشان وطن پاکستان عطاکیا۔اس کو فوراًبعد مسلمانان ہند اپنے نبی ﷺ کی سنت پر عمل کرتے ہوئے اپنے اہل و عیال، جائیداد اور گھر بار کو خیر آباد کہتے ہوئے ملک پاکستان میں داخل ہوئے۔
اے گردش ایام بے سود نہ الجھ ہم سے ہم نے ہر رنگ میں جینے کی قسم کھائی ہے
آزادی من و سلویٰ نہیں جو ایک پلیٹ میں رکھ کر دی جائے،یہ ایک ایسا گوہر نایاب ہے جو صرف ان ہی قوموں کو ملتا ہے جو وطن عزیز کے لیے سرگرداں رہتی ہیں۔آزادی حاصل کرنے کے بعد آزادی کو برقرار رکھنا سب سے کھٹن مرحلہ ہوتا ہے کتنے عظیم لوگ تھے جن کی قربانیوں کی کربناک داستانیں سن کر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔قائد اعظم ؒکی قیادت میں ہمارے آباؤاجداد نے خون کی ندیاں تک بہا دی۔ہمارا عظیم قائد جس نے سجدہ گاہوں کی حرمت کو برقرار رکھا۔جس نے سسکتی تنظیموں کے تن بسمل میں روح آزادی پھونک دی۔اس سالار ملت میں دردکودوا،بادل کو ردا، اور ظلمت کو ضیاء کا پیرھن عطا کیا۔اس عظیم قائدنے رسول عربی کے نام لیواؤں کو ایک آزاد مملکت خدا داد عطا کی۔
پہنچا گیا جو منزل مقصود تک ہمیں وہ میر قافلہ تھا محمد علی جناح
مگر افسوس اے روح قائد،وہ پاکستان جسے تو نے اپنے خون جگر سے بہاروں کامسکن بنایا تھا خزاں کے دست سفاک برباد ہو رہا ہے،وہ پاکستان جو تیری کا وشوں کا ثمر تھا تیرے نالائق فرزندوں کی سازشوں کا شکار ہوکر دولخت ہوچکا ہے وہ پاکستان جس کا چاردنگ عالم میں ڈنکا بجتا تھا۔اب بے بسی کو صدابن کراپنی مدد کے لیے پکار رہا ہے اقتدار کے بھوکے درندے ارض وطن کی بوٹیاں نوچ رہے ہیں کیا اس لیے ہم نے آزادی حاصل کی تھی۔
کیا تہذیب نے اس لیے چنوائے تھے تنکے بن جائے نشیمن تو کوئی آگ لگا دے
یقیناہر گز نہیں۔مگر افسوس کہ آج صوبہ پرستی کی لعنت کو ملت کے گلے کا ہار بنانے کے لیے کیسی بھیانک سازشیں ہو رہی ہیں۔ملت بیضاکی عظمتوں کے امیں رسول ہاشمی کے جانشین منبرو محراب سے کس طرح فرقہ پرستی کے گولے برسا رہے ہیں کس قدر زہریلے بیج عوام کے دلوں میں بورہے ہیں ایک طرف تو ہم زندہ باد کا نعرہ لگاتے ہیں دوسری طرف اس کی تمام تر قدریں ملیامیٹ کر رہے ہیں۔اس وقت ہماری سیاست منافقانہ ہماری معاشرت ہندوانہ ہماری سوچ کافرانہ اور روش باغیانہ بن چکی ہے۔پھر کیوں نہ خداکا قہر ہم پر برسے اور یقینابرس رہا ہے اور ہم ابھی تک انجام سے بے خبر ہیں۔ایمان اتحاد تنظیم ماضی کے دھندلکوں میں غائب ہو چکا ہے پوری قوم پیسے کی پیر اوراس کے حصول میں فقیر ہوچکی ہے۔
لا الہ اللہ کے نظریے پر قائم ہونے والی ریاست میں آج ننگے سر پھرنے والی اور ٹیلی ویژن (T.V)کی سکرین پر کروڑوں لوگوں کی نظروں کا نشانہ بننے والی کسی کی بیٹیاں ہیں۔ہماری نوجوان نسل نے حی الفلاح کے بجائے حیا سوز موسیقی سے دل بہلانا شروع کر دیا ہے۔ ملت اسلامیہ کا یہ نوجوان جس کے گلے میں گٹار، شانوں پر جھولتی زلفیں، ہاتھوں میں کنگن، کانوں میں بالیا ں لبوں پر سرخی اور ناخنوں پر نیل پالش لگا کر مغربی تہذیب اور ہندی ثقافت میں مست ہو چکا ہے۔ ترقی کرنے کے لیے جہاں روشن خیالی ضروری ہے وہاں روشن ضمیری بھی نا گزیر ہے۔ہم بحیثیت قو م اخلاقی طور پر دیوالیہ ہو چکے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ہم تعلیم یافتہ افرا د تو پیدا کر رہے ہیں۔ مگر وقت کا اقبال نہیں۔
آج ہم جسمانی طورپر تو یوم آزادی منا رہے ہیں مگرذہنی طور پر آج بھی غلام ہیں۔ جس آزادی کو حاصل کرنے کے لیے ہمارے آباؤ اجداد نے خون کی ندیاں بہائی تھی۔ اپنے لاشے کٹوائے تھے مگر آج سات دہائیا ں گزرنے کے باوجودہم اس آزادی کی قدر نہ جان سکے۔اور جو قومیں آزادی کی قدر کھو دیتی ہیں ان کا انجام عراق و شام جیسا ہوجاتا ہے۔
آج اگر آزادی کی قدر پوچھتے ہوتو شام، فلسطین اور کشمیر سے پوچھو۔جہاں بھوکے پیاسے بچے اپنی ماؤں کے خالی سینے ٹٹول رہے ہوتے ہیں جہاں ایک جنازے کو جنازہ گاہ تک پہنچانے کے لیے کئی جنازے اٹھا نا پڑتے ہیں۔آج ہمیں آزادی کی صحیح معنوں میں قدر کرنا ہوگی۔ اپنے اندر چھپی کالی بھیڑوں کو باہر نکالنا ہو گا۔تما م جماعتوں کو سیاسی اور مذہبی اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ایک Pageپرآنا ہو گا،تب جاکر ہم نہ صرف حقیقی آزادی منا سکیں گے بلکہ دشمن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر با ت کر سکیں گے۔ اس دعا کے ساتھ۔
اے وطن ہمیں اپنی اماں میں رکھنا احتساب عمل دید ہ تر ہونے تک
ہم تو مٹ جائیں گے ارض وطن لیکن ٍٍٍٍٍٍٍٍتم کو زندہ رہنا ہے قیامت کی سحر ہونے تک

اپنا تبصرہ بھیجیں