آراضی خاص

ساجد محمود

ضلع راولپنڈی کا گاؤں آراضی خاص روات سے تقریباً 13 کلومیٹر دور مشرق کی جانب تحصیل کلر سیداں کی مشہور یونین کونسل بشندوٹ میں واقع ہے چونکہ گاؤں کے ارد گرد کی زمین زرخیز ھے اسلیئے گاؤں کا نام آراضی خاص پڑ گیا گندم مکئی اور مونگ پھلی یہاں کی اہم فصلیں ہیں خواندگی کا تناسب انتہائی تسلی

بخش ہے اور گاؤں کی آبادی کی اکثریت تعلیم یافتہ ہے گاؤںکے لوگ سرکاری اور نیم سرکاری اداروں میں ملازمت اختیار کیے ھوئے ہیں اور بعض بیرونِ ملک روزی روٹی کیلئے سرگرداں ہیں گاؤں میں گورنمنٹ گرلز اور بوائے ہائی سکول واقع ھیں اسکے علاوہ بچیوں کیلئے پرائمری سکول بھی قائم ہے جہاں علم کی شمعیں روشن ہیں موجودہ گرلز ہائی سکول کی پرنسپل محترمہ فوزیہ ناہید اور دیگر عملے کی انتھک محنت اور لگن سے تعلیمی سرگرمیوں میں ماضی کی نسبت بہت بہتری آئی ہے اسی طرح بوائز ہائی سکول آراضی خاص میں بھی پرنسپل راجہ محمد افتخار ماسٹر محمد سلیمان اور دیگر اساتذہ اکرام کی محنت اور کاوشوں سے نصابی و غیر نصابی سرگرمیوں میں اسکول کی ترقی کا سفر جاری ہے حال ہی میں سکول نے ڈ سٹرکٹ کی سطح پر منعقدہ والی بال ٹورنامنٹ کا فائنل جیت کر سکول کا نام روشن کیا تاریخی اعتبار سے بھی یہ گاؤں بہت ہی اہمیت کا حامل ہے تقسیم ہند سے قبل گاؤں اور اس کے اردگرد کے علاقوں کلرسیداں ڈیرہ خالصہ اور ساگری میں زیادہ ترہندو اور سکھ آباد تھے اور گاؤں کے نواحی قصبہ ڈیرہ خالصہ میں مہاراجہ رنجیت سنگھ کا بیٹا شیر سنگھ بھی مقیم تھا اور اس سکھ فوج کا سپہ سالار تھا جس کی 6 مئی 1831 کو بالا کوٹ کے مقام پر مجاہدین کے لشکر کیساتھ مڈ بھیڑ ھوئی تھی جس میں سید احمد بریلوی اور شاہ اسماعیل شہید ھو گئے تھے آراضی خاص میں ہندوؤں کی عبادت کی غرض سے تعمیر شدہ دو مندر اور ایک تالاب آج بھی اپنی اصل حالت میں قائم و دائم ھیں اس وقت کے مشہور ہندو ڈاکٹر سچا نند نے اپنی بیوی ہیرا دیوی کی وصیت کے مطابق رفاہ عامہ کیلئے جو کنواں 1930 میں تعمیر کرایا تھا وہ آج بھی موجود ہے گاؤں کے بزرگوں کے بقول ڈاکٹر سچا نند نے بعد میں اسلام قبول کر لیا تھا اور اس کا نام عبدالمالک رکھا گیا تھا آنکی قبر آج بھی آراضی خاص کے قبرستان میں موجود ہے اور گاؤں میں ضروریات زندگی بجلی پانی پختہ گلیاں راولپنڈی اسلام آباد اور چوکپنڈوری تا مندرہ روڈ جو جرنیلی سڑک کو لنک کرتی ہے کی سہولیات میسر ھیں تاہم چوہدری نثار علیخا ن کا حلقہ انتخاب ھونے کے باوجود ابھی تک گاؤں گیس کی سہولت سے محروم ہے گاؤں کے لوگ آپسی رشتوں میں منسلک ھیں جس کی بنا پر بھائی چارے ہمدردی اور ملنساری کے جذبات نمایاں ہیں وطنِ عزیز کے دفاع میں اس گاؤں کے اکثر بہادر راجپوت سپوتوں نے نہ صرف تیسری جنگ عظیم میں شرکت کی بلکہ 71 ۔ 1965 کی پاک بھارت جنگ کے دوران نہ صرف اپنی جانوں کا نزرانہ پیش کیا بلکہ غازی کے خطابات بھی اپنے نام کیے جن میں مرحوم کرنل محمد فرحت کرنل عبدالطیف سارجنٹ محمد فرید کیپٹن محمد یاسین کیپٹن محمد نزیر کیپٹن محمد عزیز کے نام شامل ہیں 1971 کی جنگ کے شہداء میں حوالدار محمد یاسین عنایت حسین اور وادی خان کے نام قابلِ زکر ہیں اور موجودہ حاضر سروس ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ آف پولیس چوہدری صفدر اقبال کیپٹن مہتاب لیاقت چوہدری پروفیسر مجیر احمد لیکچرار محمد صہیب شبیر اسی گاؤں کے چشم و چراغ ہیں مرحوم اختر حسین پٹواری گاؤں آراضی خاص کی وہ واحد شخصیت تھی جنہوں نے انتہائی دیانتداری سے محکمہ مال میں اپنے فرائض سرانجام د ہیے اور رزقِ حلال کو تاحیات اپنی زندگی کا شعار بنایا وفات کے بعد نیک اولاد کے سوا نہ کوئی بینک بیلنس اور نہ کوئی جا ئیداد ترکہ میں چھوڑی جو انکی ایمانداری اور شرافت کا منہ بولتا ثبوت ہے سابقہ ایم پی اے محمود شوکت بھٹی اور چوہدری محمد حنیف کا شمار گاؤں کی قد آور سیاسی شخصیات میں ھوتا ہے اسکے علاوہ شعبہ قانون سے وابستہ افراد سابقہ ناظم راجہ ظفرالحق ایڈووکیٹ چوہدری محمد عمران ایڈووکیٹ اور راجہ محمد اشفاق ایڈووکیٹ کا تعلق بھی آراضی خاص سے ہے اس گاؤں کے مذہبی رہنماؤں نے دین کی نشرو اشاعت اور دینی تعلیمات کے فروغ کے حوالے سے قابلِ قدر خدمات سرانجام دیں ہیں ان میں جناب قاضی محمد مسعود الحسن قاضی محمد محسن صوبیدار محمد سوار خان (مرحومین) شامل ہیں انکے علاوہ صوفی عبدالوحید اورقاضی عبدالرحمن فاروقی کے نام سرفہرست ہیں انکے علاوہ قاضی سعید صاحب اور محترم ماسٹر عبدالرؤف مرحوم اور ماسٹر محمد رمضان مرحوم کا شمار گاؤں کی نہ صرف مذہبی بلکہ نامور علمی شخصیات میں ھوتا ھے اور انہوں نے ایک طویل عرصہ تک درس و تدریس کا فریضہ سرانجام دیا اسکے علاوہ ماسٹر خالد محمود قادری مرحوم کا شمار گاؤں کی علمی اور مذہبی شخصیات میں ھوتا تھا دین کی تبلیغ اور نشرواشاعت میں انہوں نے قابلِ قدر خدمات سرانجام دیں طویل عرصہ تک لونی اور دہری راجگان کی مرکزی مسجد میں بطورِ خطیب کا فریضہ سرانجام دیا فن خطابت پر مکمل دسترس رکھتے تھے اور بلخصوص 12 ربیع الاول عیدمیلاالنبی کے موقعہ پر گاؤں سے جلوس کی قیادت کیا کرتے تھے انکے علاوہ قاضی صدیقی صاحب اور آراضی گوڑہ کی مذہبی شخصیت محمد نصرالرحمان کی سرپرستی میں دینی تعلیم کی درسگاہیں قائم ہیں جہاں علاقے کی بچیاں قرآن پاک حفظ و ناظرہ کی تعلیم کا شرف حاصل کر رہی ہیں گاؤں میں ولی اللہ پیر بابا کا مزار بھی موجود ہے حال ہی میں گاؤں کی مذہبی شخصیت محمد امتیاز صاحب نے گاؤں کی آبادی کے تعاون اور ذاتی کاوشوں کی بنا پر ولی آللہ کے مقبرے کی تعمیر مکمّل کرنے کی سعادت حاصل کی ہے اور اب انکی کی سرپرستی میں ہر سال باقاعدگی سے عرس مبارک کی تقریبات کا انعقاد بھی ممکن ھو سکے گا میرا گاؤں عسکری علمی مذہبی اور سیاسی عمائدین کی آمجگاہ ہے جسکی بنا پر تمام شعبہ جات سے منسلک افراد ملکی اور مقامی سطح پر ملک و قوم کی ترقی میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں اللہ تعالی سے دعا ہے کہ تا قیامت میرے گاؤں اور وطن عزیز کو قائم و دائم اور شاد و آباد رکھے (آمین){jcomments on}

 


اپنا تبصرہ بھیجیں