سلطنت عثمانیہ کے آخری خلیفہ عزت ماٰب سلطان عبدالحمید ثانی کے پاس جب یہودی گماشتہ تھیوڈور ہرٹزل ارض انبیاء فلسطین میں رہنے کیلئے مٹھی بھر زمین کا تقاضا کرتے وقت جب یہ پیشکش کرتا ہے کہ ہم آپ کا سارا قرض تک چکا دیں گے۔
بس آپ ہمیں ارض مقدس میں تھوڑی سی زمیں عنایت کر دیں۔ تو سلطان کے الفاظ بڑے واضح تھے۔ کہ اس زمین کو ہم نے اپنے خون سے سینچا ہے اور ہم تمہیں یہ ارض مقدس کبھی نہیں دیں گے۔ وجہ یہی تھی کہ یہ شریر قوم دربدر کی ٹھوکروں اور ذلت و رسوائی کے بعد جائے پناہ نہیں ڈھونڈ رہی تھی، بلکہ وہ ایک ریاست کا خواب دیکھ رہی تھی وہ ریاست جو دریائے نیل سے لے کر دریائے فرات تک ہو۔ اور اسکو حاصل کرنے کیلئے جتنا بھی خون بہانا پڑے بہایا جائے چاہے وہ معصوم بچوں کا ہوبوڑھی عورتوں کا یا عمررسیدہ بزرگوں کا۔
اہل یہود ازل سے ہی برتری کے زعم میں مبتلا تھے چنانچہ وہ باقی تمام انسانوں کو گوئم یعنی جانور سمجھتے ہیں۔ اور سلوک بھی جانوروں جیسا ہی کرتے ہیں۔ جس کی مثال آج ارض مقدس یعنی فلسطین میں سب کے سامنے ہیں۔فلسطین ارض مقدس کیوں ہے؟
آگے بڑھنے سے پہلے چند باتیں ارض مقدس کے بارے میں۔ سب سے زیادہ انبیاء اسی سرزمین میں آئے۔ اورتین مقدس ترین عبادت گاہوں میں تیسری عباد ت گاہ مسجد اقصٰی بھی یہیں واقع ہے جس کی جانب سفر کرنے کا حکم دیا گیا حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپؐ نے فرمایا کہ تین مساجد کے علاوہ کسی اور مسجد کی جانب سفر نہیں کیا جا سکتا۔ مسجد حرام، مسجد نبویؐ اور مسجد اقصٰی۔
آپ ؐ نے مسجد اقصٰی میں ہی تمام انبیاء کی امامت کروائی۔ الاقصٰی کا مطلب دور کی ایک مسجد کے ہیں۔ یہ چونک بیت اللہ سے دوری پر واقع ہے اسی لیے اسی مسجد اقصٰی کا نام دیا گیا ہے۔یہ مسجد اقصیٰ ہی تھی جس کو امت مسلمہ کا پہلا قبلہ ہونے کا شرف بھی حاصل ہے نماز کے فرض ہونے کے بعد 16 سے 17 ماہ تک مسلمان مسجد اقصیٰ کی طرف ہی رخ کر کے نماز ادا کرتے رہے تھے۔
آج وہی مسجد اقصیٰ بدقسمتی سے پنجہ یہود میں اور محض ایک کروڑ 60 لاکھ یہودیوں نے فلسطینی مسلمانوں کی زندگی اجیرن بنائی ہوئی ہے۔اوران پہ ظلم وستم اور بربریت کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں۔الجزیرہ انگلش کی ایک رپورٹ کے مطابق 44700فلسطینی لوگوں کو اسرائیلی حملوں میں اب تک شہید کیا جا چکا ہے اور 19 نومبر 2024 تک صرف غزہ میں 43972 لوگوں کو شہید کیا گیا جن میں 17492 بچے بھی شامل ہیں۔
اس کے علاوہ 104008 لوگ زخمی ہیں اور 11000 سے زیادہ لوگ گمشدہ ہیں جن کا ابھی تک کوئی سراغ نہیں ملا۔ مزید یہ کہ ہزاروں کی تعداد میں ایسے بھی لوگ ہیں جو ابھی تک ملبے کے نیچے دبے ہوئے ہیں۔
لیکن ذرا رک جائیں لانسیٹ جرنل کی ایک رپورٹ کے مطابق اب تک 186000 سے بھی زائد فلسطینیوں کو شہید کیا جا چکا ہے۔ جہاں 96 فیصد غزہ کے شہری شدید غذائی قلت کا شکار ہیں۔ وہیں اسرائیل کے وزیراعظم نیتن یاہو یہ دھمکی لگاتا ہے کہ ہم غزہ کو صحرا میں تبدیل کر کے رکھ دیں گے۔
اسرائیل نے غزہ میں 87 فیصد رہائشی عمارتوں کو شدید نقصان پہنچایا گیا۔ اسی طرح 68 فیصد زرعی اراضی کو یہودیوں نے تباہ کر کہ رکھ دیا ہے۔ یہودیوں کی بربریت و ظلم و ستم کی انتہا دیکھیں کہ 87 فیصد اسکولوں کو بھی تباہ کر دیا گیا ہے۔ جہاں امت مسلمہ کی بے حسی اس ظلم و ستم کے بازار کو روکنے میں بری طرح ناکام رہی۔
اقوام عالم کے بڑے بڑے راہنما نیتن یاہو کے شانہ بشانہ نظر آئیچاہے وہ رشی سوناک ہو جوبائیڈن ہو ایمانویل میکرونہو یا جرمن چانسلر اولاف شولز سب ہی نے اسرائیل کے ساتھ متحد کھڑے رہنے کے وعدے کئے۔محض امریکہ اب تک اقوام متحدہ میں اسرائیل کے خلاف پیش کردہ 49 قرادادوں کو ویٹو کر چکا۔ اور یہی امریکہ تھا جس کے صدر ہیری ٹرومین نے اسرائیل کے جبری قیام کے محض 11 منٹوں بعد اسکو باقاعدہ طور پر تسلیم کر لیا تھا۔7
اکتوبر کی حماس اسرائیل جنگ کے اوائل میں جب انٹونی بلنکن اسرائیل کے دورے پہ جاتے ہیں تو موصوف خطاب کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ میں اسرائیل میں محض امریکہ کا سیکرٹری آف اسٹیٹ نہیں بلکہ ایک یہودی بن کر بھی یہاں آیا ہوں۔
قارئین گریس ہال سیل ایک اعلیٰ پائے کی امریکی مصنفہ ہیں۔وہ متشدد یہودیوں اور بنیاد پرست عیسائیوں کے بارے میں اپنی کتاب Prophecy and Politics میں لکھتی ہیں کہ آپ قطعاً اس تشویش میں مبتلا نہ ہوں کہ اسرائیل کیا کرتا ہے ہر وہ اقدام جو اسرائیل اپنے مقاصد حاصل کرنے کیلئے اٹھاتا ہے ۔
بلکہ اسرائیل جو کچھ بھی کرتا ہے خدا یہی چاہتا ہے۔ یہی خدا کی مرضی ہے۔ وہ Cyrus Scofield کی ترتیب دی گئی کتاب Scofield Bible جو کہ موجودہ دور میں بائبل کے حوالہ جات کیلئے مقبول ترین ہے۔ میں لکھتی ہیں کہ سکافیلڈ کہتا ہے حضرت عیسٰی ؑ تب تک دوبارہ نہیں آ سکتے جب تک یہودی فلسطین پہ قابض نہیں ہو جاتے۔ یروشلم کا کنٹرول حاصل کر کے ایک دفعہ پھر ٹیمپل یا معبد نہیں بناتیاور پھر ہم سب آخری عظیم جنگ آرمیگاڈون کا حصہ بن جائیں گے۔
وہ کہتا ہے کہ 10 سے 40 ملین امریکن کا یہ عقیدہ ہے کہ فلسطین خدا کی طرف سے یہودیوں کے لئے مختص کی گئی سرزمین ہے۔ اہل کفر مسلمانوں کے خلاف متحد ہوں بھی کیوں نہ جب بھی ان کے معاملات مسلمانوں کے ساتھ گھمبیر ہوں گے وہ یک جان ہو جائیں گے
کیونکہ سورہ انفال کی آیت نمبر 73 میں اللہ رب العزت فرماتے ہیں ترجمعہ۔ اور جنہوں نے کفر کیا ہے وہ ایک دوسرے کے مددگار ہیں، اگر تم لوگ اس (دستور) پر عمل نہ کرو گے تو زمین میں فتنہ اور بڑا فساد برپا ہو گا۔اسی لئے امت کو ہر دور میں متحد رہنے کی ضرورت رہی ہے۔لیکن صد افسوس آج امت مسلمہ فرقوں میں تقسیم ہو کر زمینی لکیروں کی مقید ہو گئی ہے۔ جب کہ اس کہ خلاف عالم کفر ملت واحدہ کی مانند یک جان ہو چکا ہے۔ اور جب تک ہم بطور امت واحدہ اکٹھے نہ ہوئے ہم بدترین تباہی و بربادی کا شکار ہوتے رہیں گے۔
آج اقوام متحدہ جیسے نام نہاد ادارے بھی اپنی حیثیت کو تسلیم نہ کروا سکے الٹا اقوام متحدہ میں جب برطانیہ نے فلسطین کا مسئلہ پیش کیا تو نومبر 1947 میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے فلسطین کو یہودیوں اور عربوں میں تقسیم کر دینے کا فیصلہ صادر کر دیا۔
اور اس وقت فلسطین کا 55 فیصد رقبہ 33 فیصد یہودی آبادی کو اور45 فیصدی رقبہ 67 فیصد عرب آبادی کو دے دیا گیا حالانکہ اس وقت فلسطین کی آبادی کا صرف 6 فیصد یہودیوں کے قبضے میں تھا۔ لیگ آف نیشنز ہو یا اقوام متحدہ یوں لگتا ہے کہ یہ بنائی ہی یہودیوں اور ان کے ہمنواوں کے لئے گئیں تھی۔ شاعر مشرق علامہ محمد اقبال نے بھی کیا خوب کہا تھا۔
من ازیں پیش ندانم کہ کفن دزدی چند
بہر تقسیم قبور انجمی ساختہ اند
میں اس سے زیادہ نہیں جانتا کہ چن کفن چوروں نے آپس میں قبروں کی تقسیم کیلیے ایک انجمن بنائی ہے۔ علامہ اقبال نے یہ شعر تو لیگ آف نیشنز کے لئے کہا تھا۔ لیکن یہ آج درحقیقت اقوام متحدہ کے لئے بھی بالکل اتنا ہی موزوں ہے جتنا کہ لیگ آف نیشنز کے لئے۔ آپ کو یہ جان کر حیرت ہو گی کہ اقوام متحدہ کے آفیشل مونوگرام میں 33 خانے ہیں جبکہ بدنام زمانہ یہودیوں کی خفیہ تنظیم فری میسنری کی بھی 33 ڈگری یعنی تیتیس درجے ہیں کیا یہ محض اتفاق ہے یا اس میں کوئی خاص پیغام پنہاں ہے کہ ہر وہ ادارہ جو دنیا میں ایک نمایاں حیثیت کا حامل ہیں یہودیت کے کنٹرول میں ہے۔
قارئین اقوام متحدہ جیسے اداروں کی اسرائیل کے نزدیک کوئی حیثیت نہیں۔1967کی جنگ کے بعد اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا اجلاس شروع ہو نیسے پہلے اس وقت کے اسرائیلی وزیراعظم لیوی اشکول نے اعلان کیا کہ اگر اقوام متحدہ کے 122 ممبران میں سے 121 بھی اسرائیل کے خلاف فیصلہ سنا دیں اور تنہا اسرائیل کا ووٹ ہی اس کے اپنے حق میں رہ جائے تو بھی ہم اپنے مفتوحہ علاقوں سے نہ نکلیں گے۔
آج غزہ میں انسانی المیہ جنم لے چکا اسرائیل نے جنونی پن کی انتہا کر دی بربریت و ظلم و ستم کے پہاڑ بے گنا فلسطینی مسلمانوں پہ توڑے جا رہے عورتوں بچوں بوڑھوں کو بے دریغ گولیوں اور بموں کا نشانہ بنایا جا رہا۔ لیکن اقوام عالم خاموش تماشائی بنے بیٹھی ہیں۔
لیکن اس کے ساتھ ساتھ چند کفن چوروں کی تنظیم کے مصداق تنظیم تعاون اسلامی کا کردار بھی مجرمانہ ہے۔ 54 اسلامی ممالک محض تماشائی بنے فلسطینیوں پہ ہوتا ظلم دیکھ کر چپ سادھے ہوئے ہیں اور محض طفل تسلیوں کے ساتھ چند الفاظ اسرائیل کے خلاف بول کر اپنا پنا حق ادا کر رہے ہیں۔ جس امت کو وحدانیت کا درس دیا گیا۔
جس کے بارے فرمایا گیا “مومنوں کی مثال تو ایک جسم کی طرح ہے کہ اگر ایک عُضْو(حصہ) کوتکلیف پہونچے تو ساراجسم اس تکلیف کو محسوس کر تاہے.لیکن آج اہل غزہ کو اکیلا چھوڑ دیا گیا ان کہ پناہ گزین کیمپس ہو یا ہسپتال یا پھر اسکول یہودی بلاخوف وخطر ٹنوں وزنی بم گرا کر نہتے فلسطینیوں کو شہید کر کے جشن منا رہے ہوتے ہیں۔
اور اہل غزہ یہ ظلم وستم کے پہاڑ برداشت کرنے پہ مجبور ہیں۔ اوپر سے مصر کے یہود نوز فرمانرواؤں نے رفح کراسنگ بند کر کے اہل غزہ کو یہودیوں کے غیظ و غضب سہنے پہ مجبور کر دیا۔ آج 41 کلومیٹر کا غزہ کاٹکرا لہولہان ہے جس کے ایک طرف سمند ر، ایک طرف رفح کا بارڈر جس کا رکھوالا یہود نواز اور باقی اطراف یہودی قابض ہیں۔ اسرائیل کی سفاکیت نے اسے تباہ و برباد کر کے رکھ دیا اور کفن چور اس پہ مجرمانہ خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں۔