آتجھے آئینہ دکھاتا ہوں

میرے یہ ٹوٹے پھوٹے جملے ان دو ارب زندہ لاشوں کو جگانے کی ایک کوشش ہیں،جنہیں اسرائیل کے مظلوم فلسطینیوں پہ ظلم، معصوم بچوں کی سسکیاں، ماؤں کی چیخیں، کم سن بچوں کے لاشے اور کٹے پھٹے جسم بھی نہ جگا سکے، مؤذن سے اذان کے بارے میں پوچھا جائے گا،

آپ جہاں ہے جو حال میں جس قدر ممکن ہے اپنے حصے کی آواز بلند کیے یا اپنی آواز جو کسی آواز کے ساتھ شامل کیجیے، تاکہ آواز کی بلندی میں اضافہ ہو۔

امت مسلمہ اور اسلام کے دعویداروں کو ان کے ماضی میں جھانکنے کی ضرورت ہے، ہم اس منزل کے راہی ہیں،جس کی تاریخ ایسے ہزاروں روشن ابواب سے مزین ہے،

ہماری تاریخ اپنے دامن میں صرف تلوار کی جھنکار نہیں بلکہ رحم، عدل، رواداری اور مظلوموں کی حمایت کی بے شمار مثالیں بھی سموئے ہوئے ہے۔

وہ تاریخ جو اکثر محض فتوحات و معرکوں کے آئینے میں دکھائی جاتی ہے، اس کے اوراق پر ایسے تابناک واقعات بھی ثبت ہیں جہاں آپ کی اور میرے اسلاف نے مسلمان تو کیا غیر مسلم کمزور طبقات کے لیے بھی تلواریں لہرائی ہے، ظالم کا قلا قمہ کیا ہے۔

مذہب و ملت کی تمیز بھی مظلوم غیر مسلم اقوام کو تحفظ فراہم کرنے میں رکاوٹ نہیں بنی،ہمارے اسلاف نے ان کے جان و مال کے لیے اپنی جانیں ہتھیلی پر رکھ کر جنگیں لڑیں، اور عدل و امن کے پرچم کو بلند رکھا۔جھانکیے نا تاریخ بھی اسلام کا سورج ابھی ابھر رہا تھا۔

حبشہ کی سرزمین گواہ ہے جب ایک عیسائی بادشاہ نجاشی نے مکہ کے مظلوم مسلمانوں کو اپنے دامنِ امن میں پناہ دی تھی۔
جب نجاشی پہ برا وقت آیا،اس کے خلاف جب اس کے مخالفین نے بغاوت کی تو ہجرت کرنے والے ان مسلمانوں نے، جو محض پناہ گزین تھے،

اپنے محسن کے لیے جانیں حاضر کردیں، استحکام اور تحفظ کے لیے ہر ممکن کوشش کی۔ ان کا خلوص اور حمایت اس اصول کی بنیاد تھی جو آگے چل کر مسلمانوں کے کردار کا جزو بن گیا۔کہ ظلم کے خلاف آواز بلند کرنا ایمان کا تقاضا ہے، خواہ مظلوم کا دین کچھ بھی ہو۔

اندلس کی تاریخ میں جھانکیے، اندلس کی سرزمین آپ کو ہمارے اجداد کی غیرت پہ گواہی دے گی، مسلمانوں کی حکومت سے پہلے، یہودی اور عیسائی اقلیتیں، جو قبل ازیں یورپی عیسائی حکمرانوں کے جبر و تعصب کا شکار تھیں، مسلمانوں کی حکومت میں مذہبی آزادی، علم و فن کی ترقی اور سماجی احترام سے ہمکنار ہوئیں۔

یہاں مسلمانوں نے کوئی مذہبی تعصب روا نہ رکھا بلکہ اہلِ کتاب کے مذہبی، تعلیمی و سماجی حقوق کی نگہبانی کی۔ تاریخ شاہد ہے کہ بلکہ ان عیسائیوں پہ حملہ آور ہونے والے دشمنوں کے خلاف بھی جنگیں کیں۔

سلطان صلاح الدین ایوبی کا کردار کو سمجھیے، اگر عیش و عشرت سے فرست ملے تو، جب صلیبیوں نے یورپ سے آ کر مسلمانوں کے مقدس مقامات پر قبضہ کیا اور بیت المقدس میں قتلِ عام کیا، تو صلاح الدین نے انہیں شکست دے کر شہر واپس لیا۔ تو عیسائیوں کے گرجا گھروں کو محفوظ رکھا،

ان کے قیدیوں کو آزاد کیا، اور زخمیوں کو طبی امداد فراہم کی۔ اس کے کردار میں وہ اسلامی جذبہ کارفرما تھا جو کہتا ہے کہ اگر تم میں سے کوئی کسی غیر مسلم کے ساتھ زیادتی کرے گا تو قیامت کے دن میں اْس غیر مسلم کا وکیل بنوں گا۔

یہاں ہمارے ہی مسلمان خون نہائے ہیں ہماری ہی مسجدیں ایٹمی حملوں کی نظر ہو رہی ہیں اور دوارب زندہ لاشیں اپنی باری کا انتظار کر رہی ہیں۔

خلافتِ عثمانیہ پہ نظر ڈالیے، اسپین سے نکالے گئے یہودی کو پناہ کس نے دی؟ جب وہ یورپ بھر میں پناہ کے متلاشی تھے، مددگار کون بنا، ہمارے اسلاف خلافتِ عثمانیہ کے سلطان نے ان کے لیے اپنے دروازے کھولے تھے۔

ان کی آبادکاری کے لیے انتظامات کیے تھے، انہیں کاروبار، تعلیم اور مذہب کی آزادی دی تھی۔ آج ہمارے مسلمان کٹ مر رہے، بے گوروکفن لاشیں سڑکوں پہ گل سر رہی ہیں

اور ہم محض تماشائی ہیں، کسی جلاد کے سامنے آنکھ بندھے ان مجرموں کی طرح جو دوسروں کو پھانسی چڑھتے دیکھتے ہیں، سرداہیں بھرتے ہیں اور اپنی باری کا انتظار کرتے ہیں۔

دور مت جائیے برصغیر کے پس منظر میں ہی تاریخ کو پڑھ لیجیے یہ تاریخ بھی ہمیں بتاتی ہے کہ ہمارے مسلمان حکمرانوں نے کمزور ہندو راجاؤں کی اعانت کی ہے، جن پر طاقتور جابر طبقے حملہ آور ہوا کرتے تھے۔

یہ امداد کسی مذہبی میل جول کی بنیاد پر نہیں بلکہ عدل اور انسانیت کے اْس پیمانے پر کی گئی جو اسلامی اصولوں کا نچوڑ ہے۔ مغل شہنشاہوں کی تاریخ کھنگالییے۔

جلال الدین اکبر نے غیر مسلم رعایا کے مذہبی جذبات کا نہ صرف احترام کیا بلکہ ان کی عبادت گاہوں کی بحالی میں بھی کردار ادا کیا،ہم ایسے کم بخت ہیں کہ اپنے بہن بھائیوں کو کٹتے دیکھ رہے ہیں اور بے حس ہیں۔

ہماری تاریخ میں ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے، جہاں مسلمانوں نے تلوار صرف اپنے دفاع یا فتوحات کے لیے نہیں بلکہ مظلوموں کی دادرسی، کمزوروں کی حفاظت اور انسانیت کی بقا کے لیے اٹھائی ہے۔

ان واقعات سے یہ امر واضح ہوتا ہے کہ اسلام محض ایک مذہب نہیں بلکہ ایک مکمل ضابطہ حیات ہے، جو انسانیت کے اعلیٰ ترین اصولوں پر استوار ہے۔ وہ دین جو مظلوم کی آہ سے لرز جاتا ہے، وہ کیسے اس ظلم پر خاموش رہ سکتا ہے جو مذہب کے پردے میں کیا جائے؟

مسلمانوں کا فخر صرف ان کی عظیم فتوحات میں نہیں بلکہ ان مواقع پر ہے جب انہوں نے غیر مسلم مظلوموں کے لیے بھی تلوار اٹھائی، ان کی عزت و جان کی حفاظت کی، اور دنیا کو یہ پیغام دیا کہ عدل، رحم اور رواداری صرف مسلمانوں کے لیے نہیں، بلکہ پوری انسانیت کے لیے ہیں۔

اور آج ستاون مسلم ممالک ضمیر بیچ کر دم دبائے بیٹھے ہیں اور اسرائیل کسی بھوکے بھیڑیے کی طرح مسلمانوں کو نوچ رہا ہے اور ہم بھیڑ بکریوں کی طرح اپنی باری کا انتظار کر رہے ہیں، پارلیمنٹ میں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے پہ بحث و مباحثہ ہے۔

عیش و عشرت ہیں، دورے ہیں، عوام ٹی وی ڈراموں میں یہ دکھ لیے بیٹھی ہے کہ فلاں کا بریک ہو گیا، فلاں بے وفا نکلا، چینلز رینکنگ کے چکر میں تمام حدیں پار کر رہے ہیں، حکمران کرسی کی جستجو میں مرے جارہے ہیں۔حیف ہے کہ ہم مسلمان ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں