پوٹھوہار ریجن میں محکمہ موسمیات کے مطابق کوئی ریکارڈ توڑ بارشیں نہیں ہوئیں ہیں البتہ نقصانات ایسے ہوئے ہیں کہ جیسے ان علاقوں میں ایسی بارشیں پہلی بار ہو رہی ہوں۔ بارشوں کے پیمائش کے طریقہ کار کے مطابق اک محتاط اندازہ لگایا جاتا ہے کہ متعلقہ علاقہ میں کتنی بارش ہوئی ہے۔ یہ حساب کتاب ملی میٹر کے حساب سے لگایا جاتا ہے۔ اپنی دانست میں جو سمجھ آیا ہے آسان الفاظ میں یوں ہے کہ ایک ملی میٹر بارش جب ایک مربع فٹ پر برستی ہے تو اس مربع فٹ پر ایک لیٹر پانی گرتا ہے یعنی پچاس ملی میٹر بارش ہو تو ایک مربع فٹ پر پچاس لیٹر پانی برسے گا۔ یہاں پر اک نکتہ مزید بیان کرتا جا¶ں کہ اگر پچاس ملی میٹر بارش 5 گھنٹے میں ہوتی ہے تو بھی پانی کی مقدار وہی رہے گی اور اگر یہ برسات گھنٹہ بھر رہے تو بھی مقدار پانی وہی ہوگی یہاں تک کہ پچاس ملی میٹر بارش دس منٹ میں برستی ہے تو بھی پانی کی مقدار انسانی کلیہ کے مطابق وہی رہے گی۔ یہ بات بھی بتاتا چلوں کہ ”کلا¶ڈ برسٹ یعنی بادل کا پھٹنا“ کا کلیہ یہ ہے کہ اک مخصوص علاقہ میں ایک گھنٹہ میں 200 ملی میٹر بارش ریکارڈ ہوتو یہ کلا¶ڈ برسٹ ہوگا۔ محمکہ موسمیات کے مطابق پوٹھوہار میں گزشتہ سپیل میں کہیں بھی 200 ملی میٹر اک گھنٹہ میں بارش ریکارڈ نہیں ہوئی۔ اسلام آباد سید پور گا¶ں میں ڈیڑھ گھنٹہ میں 190 ملی میٹر بارش ریکارڈ ہوئی تھی۔
دوسری بات سیلابی نوعیت کے پانی کے بہا¶ کی طاقت بہت زیادہ ہوتی ہے لہذا کبھی بھی بے احتیاطی نہ کریں۔ سیلابی پانی کا ایک فٹ تیز رفتار ریلا SUV گاڑیوں یعنی بڑی بڑی کاروں تک کو بہا لیجانے کی طاقت رکھتا ہے جبکہ دو فٹ کا ریلا ٹرک،بس اور ٹرالروں کو بہا لیجانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔اب جب ہم بارش کے پانی کی مقدار و طاقت کی معلومات سے بہرہ مند ہوچکے ہیں تو ہمیں سوچنا ہوگا کہ ہم اپنا گھر کس علاقہ میں بنا رہے ہیں یا دیگر ضرورت کی کاروباری تعمیرات کہاں کر رہے ہیں اگر ہماری تعمیرات ایسے علاقہ میں ہیں جہاں سے کسی علاقہ کے بارشی پانی کا گزر ہوتا ہے تو پھر ہمیں وہ تمام احتیاطی تدابیر ملحوظ خاطر رکھنا ہونگی جو اس پانی کے نقصان سے ہمیں بھی بچائیں اور دیگر کےلیئے بھی مسائل پیدا نہ کریں۔
درجہ بالا نکات پر غور کرنے سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ درخت ہمارے لیئے کتنے اہم ہیں۔ وہ علاقے جہاں درختوں کی صفائی کردی گئی ہے۔ طویل قدرتی تغیر وتبدل سے ترتیب پانے والی ”ٹوپوگرافی” یعنی کسی جگہ نالہ تو کسی جگہ ٹیلہ ان سب کو بھی ملیا میٹ کیا جا رہا ہے۔ درختوں کی عدم دستیابی،ٹوپو گرافی کی تبدیلی کے عوامل، پانی کی وسیع گزرگاہوں میں بڑی بڑی رکاوٹیں ان سب کی وجہ سے معمول کی بارشوں کے پانی کو اتنا زیادہ طاقتور کردیا ہے کہ منوں بھاری پتھر ہمیں پانی میں ایسے لڑھکتے نظر آتے ہیں کہ جیسے بچپن میں ہماری کاغذ کی کشتیاں۔
اگر ہم نے آئندہ مالی و جانی نقصان سے بچنا تو ہمیں فوری طور پر مقامی درختوں کی زیادہ سے زیادہ شجرکاری کرنی ہوگی۔ رہائشی سوسائٹیوں کی اس بات کا پابند بنانا ہوگا کہ وہ نہ ٹوپوگرافی کو یکسر تبدیل کریں اور نہ ہی آبی گزرگاہ کو تنگ کریں۔ گوگل میپ کی مدد سے ایسی تمام زمین جو برساتی پانیوں کی گزرگاہیں ہیں انکی نشان دہی کرکے انکو تعمیراتی مقاصد کے لیئے ممنوع قرار دیا جائے۔ زمین کی حیثیت شاملات ہو یا ذاتی بلاتخصیص پابندی کا اطلاق کیا جائے۔ہم نظام فطرت کیساتھ بہت ہٹ دھرمی کر چکے ہیں یہ ہٹ دھرمی اب ختم ہونی چاہیئے۔ نہ صرف ہٹ دھرمی ختم ہونی چاہیئے بلکہ اس کا تدارک بھی ہونا چاہیئے۔ یہ نہ ہو کہ اگلے چند برسوں میں ہم محض زندگی کے لیئے بھی ایسے تڑپ رہے ہوں جیسے مچھلی پانی کے لیئے۔ کیونکہ دیر ہوچکی ہے اور پانی پلوں کے نیچے سے بے تحاشہ گزر چکا ہے
راجہ غلام قنبر