Categories: کالم

آئی ایم ایف معاہدہ — سہارا یا بوجھ؟ پاکستان کی معیشت ایک نئے موڑ پر”*



بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ساتھ پاکستان کا نیا معاہدہ ملکی معیشت کے لیے ایک نازک مگر اہم موڑ کی حیثیت رکھتا ہے۔ گزشتہ کئی برسوں سے پاکستان کو مالی بحران، زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی، بڑھتے ہوئے تجارتی خسارے، اور مہنگائی کے طوفان نے اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ ان حالات میں آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ بظاہر ایک وقتی سہارا ضرور فراہم کرتا ہے، مگر اس کے اثرات عوام اور معیشت دونوں پر گہرے اور طویل المدتی ہوتے ہیں۔ حکومت پاکستان کے مطابق یہ معاہدہ معیشت کو استحکام دینے، کرنسی کے دباؤ کو کم کرنے اور مالی نظم و ضبط قائم کرنے میں مددگار ثابت ہوگا۔ تاہم، ماہرین معیشت اس بات پر متفق ہیں کہ اگر اس معاہدے کے تقاضوں کو سمجھداری اور دیانت داری سے نافذ نہ کیا گیا تو یہ سہارا بوجھ میں تبدیل ہو سکتا ہے۔

آئی ایم ایف کے ساتھ ہونے والے موجودہ معاہدے کے تحت پاکستان کو سخت شرائط کا سامنا کرنا پڑے گا جن میں بجلی و گیس کی قیمتوں میں اضافہ، ٹیکس نیٹ کی توسیع، سبسڈی میں کمی، اور سرکاری اداروں کی نجکاری جیسے اقدامات شامل ہیں۔ یہ شرائط بظاہر مالی نظم و ضبط کے لیے ہیں، لیکن ان کے براہِ راست اثرات عام شہریوں پر پڑتے ہیں۔ مہنگائی پہلے ہی دو ہندسوں میں پہنچ چکی ہے اور نئے ٹیکسوں یا نرخوں میں اضافے سے عوامی مشکلات مزید بڑھنے کا خدشہ ہے۔ حکومت کا موقف ہے کہ یہ اقدامات وقتی ہیں اور ان سے حاصل ہونے والا استحکام مستقبل میں عوام کو ریلیف دینے کا سبب بنے گا، مگر زمینی حقائق اس کے برعکس دکھائی دیتے ہیں۔ کاروباری طبقہ، خاص طور پر چھوٹے اور درمیانے درجے کے تاجر، حکومتی پالیسیوں سے غیر یقینی کا شکار ہیں کیونکہ ان کے لیے پیداواری لاگت میں اضافہ کاروبار کو برقرار رکھنا مشکل بنا رہا ہے۔

پاکستان کی معیشت کا اصل مسئلہ بیرونی قرضوں پر انحصار اور اندرونی محصولات میں کمی ہے۔ آئی ایم ایف سے معاہدہ وقتی طور پر زرمبادلہ کے ذخائر میں بہتری ضرور لاتا ہے، مگر یہ کوئی دیرپا حل نہیں۔ اگر ملک اپنی برآمدات کو بڑھانے، درآمدات کو متوازن کرنے، اور ٹیکس نیٹ کو مؤثر طریقے سے وسعت دینے میں ناکام رہا تو ہر چند سال بعد دوبارہ کسی نئے قرض پروگرام کی ضرورت پڑتی رہے گی۔ پاکستان کے معاشی ماہرین اس بات پر زور دیتے ہیں کہ آئی ایم ایف کے پروگرام کو وقتی سہارا سمجھ کر اپنی پالیسیوں میں طویل المدتی اصلاحات لانی ہوں گی۔ زرعی اور صنعتی شعبے میں پیداوار بڑھانا، مقامی سرمایہ کاری کو فروغ دینا، اور تعلیم و ہنر مندی کے نظام کو مضبوط بنانا وہ اقدامات ہیں جو معیشت کو پائیدار بنیاد فراہم کر سکتے ہیں۔ اگر ان پہلوؤں کو نظر انداز کیا گیا تو ہر حکومت آئی ایم ایف کے در پر جا کر نئی شرائط کے بوجھ تلے جھکتی رہے گی۔

عوامی سطح پر اس معاہدے کو لے کر ملا جلا ردعمل دیکھنے میں آ رہا ہے۔ ایک طبقہ اسے معیشت کی بحالی کے لیے ناگزیر قدم قرار دیتا ہے جبکہ دوسرا اسے خودمختاری پر سمجھوتہ سمجھتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے ایک ملک کے مالی نظم کے ساتھ ساتھ اس کی سیاسی ترجیحات کو بھی متاثر کرتے ہیں۔ ماضی میں کئی بار دیکھا گیا کہ ان شرائط کے نتیجے میں حکومتوں کو عوامی دباؤ اور احتجاج کا سامنا کرنا پڑا۔ اگر حکومت موجودہ معاہدے کے دوران شفاف پالیسی اپنائے، عوام کو اعتماد میں لے، اور اصلاحات کو سیاسی وابستگیوں سے بالاتر ہو کر نافذ کرے تو یہ معاہدہ ملک کے لیے استحکام کا سبب بن سکتا ہے۔ بصورتِ دیگر، یہ ایک اور قرض پروگرام کی صورت میں قومی خزانے پر بوجھ بڑھانے کے سوا کچھ نہیں دے گا۔ پاکستان کو اب یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ قرضوں پر انحصار کرنے والا ملک رہنا چاہتا ہے یا خود کفالت کی جانب بڑھنے والا ایک مضبوط اقتصادی نظام تعمیر کرنا چاہتا ہے۔

آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ بلاشبہ پاکستان کے لیے ایک مالی سہارا فراہم کرتا ہے، لیکن یہ سہارا اسی وقت سودمند ثابت ہو سکتا ہے جب اسے اصلاحات کے ساتھ جوڑا جائے۔ معیشت کو پائیدار بنیادوں پر کھڑا کرنے کے لیے حکومت کو صرف بیرونی قرضوں پر انحصار کرنے کے بجائے ملکی وسائل کے بہتر استعمال، ادارہ جاتی شفافیت، کرپشن کے خاتمے اور سرمایہ کاری کے فروغ پر توجہ دینا ہوگی۔ اگر یہ معاہدہ صرف وقتی ریلیف حاصل کرنے کے لیے استعمال کیا گیا تو یہ آنے والی نسلوں پر مزید قرضوں کا بوجھ ڈال دے گا۔ اب وقت آ گیا ہے کہ پاکستان اپنی معاشی پالیسیوں میں خودمختاری، دیانت داری اور دوراندیشی کو بنیاد بنائے تاکہ مستقبل میں کسی بیرونی ادارے کی شرائط پر معیشت کو نہ چلانا پڑے بلکہ اپنی قومی حکمتِ عملی کے تحت ترقی کی راہیں خود متعین کی جا سکیں۔

فرقان کاظم

Recent Posts

ہمیں اولاد کو بتانا ہو گا والدین کی اہمیت اور خاندانی نظام کیا ہے،امیر عبدالقدیر اعوان

حضرت آدم ؑ کا وجود جب مٹی اور گارے کے درمیان تھا میں (حضرت محمدﷺ)…

15 minutes ago

راوت پولیس اہلکاروں پر شہری سے تشدد اور رقم ہتھیانے کا الزام

راولپنڈی (حماد چوہدری) راولپنڈی کے رہائشی شہری علی امیر خان نے ایس ایچ او تھانہ…

20 minutes ago

پنجاب میں عام بلدیاتی انتخابات مارچ 2026 میں کرانے کا فیصلہ

اسلام آباد (حذیفہ اشرف) — الیکشن کمیشن آف پاکستان نے صوبہ پنجاب میں عام بلدیاتی…

52 minutes ago

جسٹس اعجاز اسحاق کیخلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر

اسلام آباد (نمائندہ پنڈی پوسٹ)اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان کے خلاف…

1 hour ago

گوجرخان صوبائی محتسب پنجاب کی عوامی آگاہی مہم اور کھلی کچہری کا انعقادگوجرخان

صوبائی محتسب پنجاب کے دفتر کی جانب سے عوامی آگاہی مہم اور کھلی کچہری کا…

2 hours ago