آئی ایم ایف سے قرض ملنا فتح نہیں ناکامی ہے

وزیرخزانہ مفتاح اسماعیل نے آئی ایم ایف کی طرف سے جلد ایک ارب سترہ کروڑ ڈالرز موصول ہونے کی خوشخبری قوم کو سناد ی ہے انہوں نے معاہدے میں تعاون پر وزیراعظم ساتھی وزرا، سیکریٹریز اور فنانس ڈویژن کا بھی شکریہ ادا کیا ہے۔ اس سے قبل بھی مفتاح اسماعیل قوم کو خوشخبریاں سناتے رہے ہیں کہ آئی ایم ایف سے جلد قرض موصول ہو جائے گا، اسے حکومت اپنی کامیابی قرار دے رہی ہے۔ اس سے قبل بھی تمام حکومتیں آئی ایم ایف سے بڑھ چڑھ کر معاہدے کرتی رہی ہیں اور اس کا کریڈٹ لینے کی کوشش کرتی رہی ہیں۔ حالانکہ یہ کوئی کامیابی نہیں بلکہ ناکامی ہے کہ ریاست کے پاس اتنی رقم بھی نہیں ہے کہ وہ کاروبار حکومت چلا سکے جبکہ مہنگائی آسمان کو چھو رہی ہے، ٹیکس بے تحاشا لگ چکے ہیں اس کے باوجود خزانہ خالی ہونا اور آئی ایم ایف کے سامنے جھولی پھیلا کر بھیک سے زیادہ ذلت آمیز قرض مانگنا نہایت شرمندگی کا باعث ہے۔
آئی ایم ایف قرض بھی ایسے دیتا ہے جیسے بھیک دے رہا ہو۔ اس کے لیے ریاستوں کو اپنی آزادی و خودمختاری تک کا سودا کرنا پڑتا ہے۔ معاشی لحاظ سے کمزور ممالک ایک بار اس کے چنگل میں پھنس جائیں پھر ان کے لیے نکلنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔آئی ایم ایف کی پالیسیاں بھی ایسی ہیں جن کے ذریعے وہ قرض لینے والے ممالک کو جکڑ لیتا ہے۔ آئی ایم ایف ان ممالک کو اتنا ہی قرض فراہم کرتا ہے جس سے وہ بمشکل بیرونی قرضوں پر لگنے والا سود ہی ادا کر پاتے ہیں۔ اس طرح انہیں اپنے دیگر اخراجات کے لیے پھر قرض لینا پڑتا ہے یوں غریب ممالک آئی ایم ایف اور اس کے پس پردہ امریکہ وغیرہ کے زیر اثر رہتے ہیں اور ان کی ہر شرط ماننے پر مجبور ہوتے ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ جن ممالک نے آئی ایم ایف سے قرض لینے کی غلطی کی وہ معاشی طورپر تباہ ہو گئے۔
غریب ممالک کے لیے آئی ایم ایف کے قرض زہر قاتل سے کم نہیں ہیں۔ پاکستان بھی انہی ممالک میں سے ایک ہے جو آئی ایم ایف سے قرض لے کر اپنی آزادی، خود مختاری اور سلامتی داؤ پر لگا چکا ہے۔ پاکستان نے بھی آئی ایم ایف کی شرائط مانیں اور قرض لے کر معیشت کی تباہی کا تحفہ حاصل کر لیا۔ پاکستان کی ہر حکومت نے ان قرضوں کا مزہ چکھا ہے۔ ہماری اپنی پالیسیاں ہی ایسی ہیں کہ حکومتوں کے پاس آئی ایم ایف کے پاس جانے کے سوا کوئی چارہ ہی نہیں ہوتا۔ کیونکہ ہمارے حکمران اپنی سیاست چمکانے کے لیے عوام کو وقتی اور عارضی فائدے دینے پر بہت توجہ دیتے ہیں وہ انہیں مستقل طور پر اپنے پاؤں پر کھڑا نہیں ہونے دیتے۔ جو معاشرے اور ریاست دونوں کے لیے تباہ کن ہے۔ جیسے گزشتہ حکومت نے دس لاکھ تک کا علاج مفت کرنے کا اعلان کر دیا تھا اور صحت کارڈ کے نام سے یہ سکیم متعارف کرائی تھی،لنگر خانے وغیرہ کھولے تھے۔ اسی طرح موجودہ حکومت مفت بسیں چلا رہی ہے، پنجاب حکومت نے سو یونٹ تک مفت بجلی کی فراہمی کا اعلان کر دیا تھا جو فی الحال سترہ جولائی تک مؤخر ہو چکا ہے۔ تو یہ سب اخراجات سرکاری خزانے سے ہی ادا ہوں گے جس کے لیے حکومت کو قرض لینے پڑیں گے۔ تو یہ حکمران عوام کو مفت چیزیں فراہم کرنے کی بجائے تھوڑی سی سوچ و بچار کر کے عوام کو اس قابل کیوں نہیں بناتے کہ وہ مفت لینے کی بجائے باآسانی اپنے اخراجات خود ہی اٹھا لیں۔ ان کی فی کس آمدن میں اتنا اضافہ ہو جائے کہ ہر چیز کا بل اپنی جیب سے باآسانی ادا کردیں، یہ معاشرے اور ریاست دونوں کے لیے فائدہ مند ہوتا ہے۔ آئی ایم ایف تو امریکی وائسرائے ہے اس کے پاس جانے
والے ممالک بالواسطہ طور پر امریکہ کے غلام بن جاتے ہیں پھر آئی ایم ایف کے ذریعے وہ ممالک کو کنٹرول کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آئی ایم ایف مختلف قسم کے مطالبات کرتا ہے، قرض دینے کے لیے اہم معلومات لیتا ہے جن میں انتہائی حساس نوعیت کی معلومات بھی شامل ہیں۔ آئی ایم ایف تو ایک مالیاتی ادارہ ہے اسے ممالک کی حساس معلومات سے کیا سروکار ہے؟ اس کے پیچھے امریکا وغیرہ جیسے بااثر ممالک ہوتے ہیں جنہیں یہ معلومات درکار ہوتی ہیں۔ ہماری حکومتیں بے دھڑک آئی ایم ایف کے پاس پہنچ جاتی ہیں حالانکہ انہیں اس سے گریز کرنا چاہیے اور ماہرین کو بٹھا کر تھوڑا اس بات پر غور کر لینا چاہیے کہ اگر ہم آئی ایم ایف کے پاس نہ جائیں تو ہمارے پاس معیشت کو سنبھالا دینے کے لیے کون سا راستہ ہو سکتا ہے۔ ماہرین سینکڑوں راستے بتا دیں گے کیونکہ پوری دنیا کی معیشت آئی ایم ایف پر نہیں چل رہی، لہٰذا ہم بھی اپنی معیشت آئی ایم ایف کے بغیر چلا سکتے ہیں لیکن اس کے لیے ہمیں تھوڑی سی تگ و دو کرنی ہو گی اور ماہرین کے مشوروں کے مطابق عمل کرنا ہو گا۔
آئی ایم ایف سے قرض ملنا کوئی خوشی کی بات نہیں بلکہ پریشانی اور شرمندگی کی بات ہے لہٰذا معیشت کی بہتری کے لیے زیادہ سے زیادہ صنعتیں قائم کی جائیں اور بیرونی سرمایہ کاروں کو پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے کی طرف متوجہ کیا جائے تاکہ پاکستان کی برآمدات میں اضافے ہو اور معیشت مضبوط ہو جائے۔ حکومت مفت میٹرو، مفت بجلی اور مفت بسیں چلانے کی بجائے فیکٹریاں اور کارخانے قائم کر لے تو یہ عوام کے لیے زیادہ مفید ثابت ہو گا کیوں کہ ایک طرف بہت سے بیروزگار لوگوں کو روزگار ملے گا تو دوسری طرف ملکی معاشی صورتحال میں بھی بہتری آئے گی اور کچھ عرصہ میں ہم آئی ایم ایف کے محتاج نہیں رہیں گے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں