آئیں خیر بانٹتے ہیں

شاہد جمیل منہاس/کسی دانشور نے کیا خوب فرمایا کہ اپنے حال پر افسوس کرنا‘خود پر ترس کھانا‘اپنے آپ کو لوگوں میں قابل رحم ثابت کرنا سب جہانوں کو پیدا کرنے والے ربّ کی ناشکری میں آتا ہے۔ اللہ کسی انسان پر اُسکی برداشت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا۔بیمار اور لاغرروحیں ہر وقت گلہ کرتی ہوئی پائی جاتی ہیںاور صحت مند روح شکر گزار رہتی ہے۔ جبکہ ہونا یہ چاہیے کہ بیمار اور صحت مند ارواح دونوں ربّ کی شکر گزار ہوں اور دونوں صبر کے اعلیٰ معیار پر فائز ہوں۔ زندگی پر تنقید اور شکوہ خالق پر تنقید کے زمرے میں آتا ہے۔ گنہگارترین انسان کو ایسے خیالات اور سوچ سے کوسوں دور رہنا ہوگا۔ ایسی تنقید ایمان سے محروم کر دیا کرتی ہے۔ یاد رہے کہ کچھ انسان سارا سارا دن خاموش رہتے ہیں مگر بولنے والوں سے زیادہ تاثیر والے ہوتے ہیں۔ ہر وقت وعظ کرنے والوں سے زیادہ علم کے موتی بکھیرتے ہوئے پائے جاتے ہیں۔ اس طرح کے افراد آپ کے گھر میں‘آپ کے محلّوں میں‘آپ کے خاندان میں‘آپ کے حلقہ احباب میں‘آپ جہاں کام کرتے ہیں وہاں اور ہر اُس جگہ موجود ہوتے ہیں جہاں بُرائی پائی جاتی ہے، جہاں سب کچھ پایا جاتا ہے مگر یہ افراد پھر بھی ہر اچھی بُری جگہ موجود ہوتے ہیں۔ ربّ کی ذات اپنے انبیائ‘اولیاء اور نیک بندوں کے ذریعے اپنا کا م کر رہی ہے۔ وہ ذات خیر بانٹ رہی ہے مگر خیر وہی لے سکتا ہے جو خیروالا ہو۔ خیر وہی حاصل کر سکتا ہے جس نے اس خیر کو آگے تقسیم کرنا ہو۔ خیر وہی قبول کر سکتاہے جس کو شر سے انتہا درجے کی نفرت ہو۔ خیر بانٹنے والے قہر ذدہ ماحول میں بھی خیر ہی تقسیم کرتے ہیں۔ یہ خیر تقسیم کرنے والے خیر کو خوش آمدید کہنے والے لوگ ایک ماں کی طرح ہوتے ہیں کہ بدترین بیٹے کے اعمال سے تنگ آکر اس کی شکل تک نہ دیکھنے والی ماں کے سامنے اگر کوئی یہ کہہ دے کہ آپکے بیٹے کو آگ میں ڈالا جا رہا ہے۔ اگر آپ اسکو معاف کر دیں گی تو وہ اس عذاب سے بچ سکتا ہے۔ وہ ماں جسکو اسکی بہو کے سامنے ذلیل کیا گیا‘وہ ماںجس کو گھر تک سے نکل جانے کا کہہ دیا گیا‘وہ ماں جو راتوں کو بھوکی سو کر اولاد کے گن گاتی رہی۔ اور پھر وہی ماں اپنے بیٹے کو آگ سے یوں بچائے گی جیسے وہ انتہا درجے کا پرہیزگار بیٹا ہو۔ یہ خیر تقسیم کرنے والے بھی بڑے عجیب ہوتے ہیں۔ یہ افراد ایک باپ کی طرح ہوتے ہیں کہ جو دوسرے کمرے میں جا کر رو لیتا ہے مگر اولاد کے حوصلے پست ہونے نہیں دیتا۔ آپکو معلوم تو ہو گا کہ آج کا اور گزرے ہوئے کل کا ہر باپ سارا دن بھوکا رہ کر راتوں کو جب گھر آتا ہے تو اولاد کی بھوک مٹانے کی خاطر یہ کہتا ہے کہ میں آج کھانا کھا کر آیا ہوں یا یہ کہ آج میں نے دن کا کھانا بہت لیٹ کھایا تھا بھوک نہیں ہے۔ خیر بانٹنے والے اُس نانی کی طرح ہوتے ہیں جو اپنے بیٹے اور آپکی والدہ کے گھر محض اس لیئے دن میں بار بار چکر لگاتی رہتی ہے کہ کہیں میری بیٹی اور اسکی اولاد کو میری ضرورت نہ ہو۔ ایسے افراد اپنی فکر ہر گز نہیں کرتے کیونکہ انکی فکر کرنے والی ربّ کی ذات اوپر نیچے چاروں طرف اُنکو ابدی زندگی کے خوبصورت خوابوں میں محور رکھتی ہے۔ اچھا سوچنے والوں کے ساتھ بہترین ہوا کرتا ہے۔ ذرا سوچیں کہ اگر ہاتھ دھونے واش بیسن کی طرف جاتے ہیں اور اُس میں چیونٹیاںگرمی کی شدت کو کم کرنے کے لیئے سکون کی حالت میں بیٹھی ہوں۔ اور ہم لاپروواہی میں پانی کھول دیتے ہیں اور سب کی سب اُس میں بہہ جاتی ہیں۔ مجھے نہیں معلوم کہ یہ کتنا بڑا گُناہ ہے۔ یا یہ گُناہ کے زمرے میں آتا بھی ہے کہ نہیں مگر مجھے اتنا ضرور معلوم ہے‘مجھے یہ یقین کامل ضرور ہے کہ ہم میں سے کوئی اگر ان چیونٹیوں کی زندگی بچانے کے لیئے اپنے چند منٹ مزید ضائع کر لیتا ہے اور اس انسان کی اس سوچ کی بدولت وہ چیونٹیاں اس جگہ سے چل کر باہر نکل جاتی ہیں تو میں سمجھتا ہوں اس نے ان چیونٹیوںکی تعداد کے برابر انسانوں کو بچا لیا اور جس نے ایک انسان کی جان بچائی اُس نے ایک خاندان ایک نسل کی جان بچائی ۔ اور جس نے ایک انسان کو قتل کیا اُس نے جہنم کی قہر آلود جگہ اپنے لیئے منتخب کر لی۔ یاد رہے کہ واصف علی واصف نے فرمایا کہ ©” رزق صرف یہی نہیں کہ جیب میں مال ہو بلکہ آنکھوں میں بینائی بھی رزق ہے‘دماغ کا خیال بھی رزق ہے‘دل کا احساس بھی رزق ہے ‘رگوں میں خون رزق ہے‘یہ زندگی ایک رزق ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ہمارا ایمان بھی رزق ہے“۔ بالکل ایسے ہی خیر تقسیم کرنے والوںکی ایک ایک بات، ایک ایک قدم اورایک ایک عمل رزق ہے جو بظاہر وہ دوسروں کے لیئے کر رہے ہوتے ہیں۔ مگر آخرت میں یہ سب جمع ہو کر خیرکا چبوترا بن جائے گا۔ روز قیامت جب افراتفری کا سماں ہو گا ۔ ہر کسی کو اپنے اعمال کی فکر ہوگی۔ ماں بیٹے کو اور بیٹا ماں کو، بیوی میاں کو اور میاں اپنی رفیق حیات کو پہچاننے سے انکاری نظر آئے گا۔ تو اُس بھیانک ماحول میں ربّ کی ذات خیر بانٹنے والوں کی تلاش میں اپنے فرشتوں کو روانہ کر دے گی اور انہیں ڈھونڈ کر جنت میں پھولوں کی سیج پربٹھا دیا جائے گا۔ ہم نے اور آپ نے دیکھا ہو گا کہ سارا دن محنت و مشقت کرنے والوں کو کوئی وبا کوئی بیماری نہیں ہو ا کرتی۔ بالکل ایسے ہی ساری زندگی دوسروں کے لیئے بہترین سوچنے والوں کو جہنم والی بیماری ہر گز نہیں ہو گی۔ شیطان اور بدی ایسے افراد کے قریب تک نہیں آتے۔ جاتے جاتے ایک بات جس پر ہر قاری نے بار بار توجہ کرنی ہے وہ یہ کہ جو فرد یہ سوچتا ہے کہ نماز پڑھنے سے اس کا وقت ضائع ہو گا اور وہ نماز ترک کر دے یااُجلت میں نماز ادا کرے۔ جو شخص روزہ اس لیئے نہیں رکھتا کہ کمزور ہو جائے گا یا بھوک و پیاس اُس سے برداشت نہیں ہوتی۔ جو شخص بوڑھے والدین کا تعارف اس لیئے نہیں کرواتا کہ وہ ان پڑھ ہیں یا وہ ایک ہی بات کو بار بار دہراتے ہیں تو ایسے گُنہگار افراد یاد رکھیں کہ اوپر بیان کردہ ہر خامی اُن میں آ کر رہے گی۔ لہذا چلیں آئیں خیر بانٹتے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں