ؔ گانا‘روح کی سزا

پروفیسر محمد حسین
موسیقی یعنی گانا بجانا جسے موجودہ دور میں ہمارے معاشرے میں ایک نیا اعزاز بخشا گیا ہے کہ موسیقی یعنی گانا بجانا روح کی غذا ہے لیکن اصل میں معاملہ اس کے برعکس ہے موسیقی روح کی غذا نہیں بلکہ روح کی سزا ہے اور یہ سزا آخرت کا باعث بنے گی حضرت عمرانؓ بن حسین فرماتے ہیں کہ رسو لؐ اللہ نے ارشاد فرمایا کہ اس امت میں زمین میں دھنسنے اور شکلیں بگڑنے اور آسمان سے پتھر برسنے کا عذاب نازل ہو گاکسی صحابیؓ نے عرض کیا اے اللہ کے رسولؐایسا کب ہو گا؟ رسولؐاللہ نے فرمایا کہ جب گانے بجانے والی عورتیں اور گانے بجانے کا سامان ظاہر ہو جائے گا اور لوگ شرابیں اڑائیں گے (ترمذی)حضرت عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں کہ ایک رات حضور اکرمؐ نے کسی شخص سے گانے کی آواز سنی تو فرمایا کہ اس کی نماز قبول نہیں اس کی نماز قبول نہیں اس کی نماز قبول نہیں۔حضرت ابو ہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ رسولؐ اللہ نے فرمایا کہ گانا بجانا اور سننا بڑا گناہ ہے اور سننے سے بچو اس لیے کہ یہ دل میں اس طرح نفاق پیدا کرتا ہے جس طرح کھیتی کو پانی اگاتا ہے گانا سننا اورس ا کے پاس بیٹھنا فسق ہے اور اس گانے سے لطف اندوز ہونا کفر ہے اسی طرح ایک حدیث جو حضرت علیؐ سے مروی ہے کہ رسولؐ کریم نے فرمایا کہ میں بانسریاں اور گانے بجانے کے سامان کو توڑنے کے لیے بھیجا گیا ہوں ‘مشکوٰۃ۔اب جو لوگ کہتے ہیں کہ دکانوں بند کروانا گانوں کی کیسٹیں اور سیڈیاں توڑنا یہ شدت پسند ی ہے یا جاہلیت ہے تو کیا نبی پاکؐ نعوذ باللہ شدت پسند تھے یا جاہل تھے حضرت انسؓ سے نبی پاکؐ کاارشاد نقل ہے کہ جو شخص گانا سنے گا تو قیامت کے دن اس کے کانوں میں پگھلا ہوا سیسہ ڈالا جائے گا حضرت ابو ہریرہ کہتے ہیں کہ ہم رسولؐ کریم کے ساتھ سفر میں تھے آپؐ نے دو آدمیوں کے گانے کی آواز سنی ان میں ایک شعر پڑ رہا تھا اور دوسرا اس کا جواب دے رہا تھا تو آپؐ نے ارشاد فرمایا دیکھو یہ کون لوگ ہیں لوگوں نے عرض کیا کہ یہ فلاں فلاں آدمی ہیں تو آپؐنے ان کے لیے بد دعا کی تھی فرمایا اللہ انھیں جہنم میں الٹ دے اور آگ میں دھکیل دے ذراسوچئیے جس کے لیے نبی پاکؐ نے بد دعا کی اس کا انجام کیا ہو گا یہ بد دعا صرف ان دو آدمیوں کے لیے نہ تھی بلکہ آج بھی اگر کوئی ایسا کرے تو اس پر یہ بھی یہ بد دعا لاگو ہو گی حضرت زید بن ارقم سے روایت ہے کہ ایک دفعہ رسولؐ اللہ مدینہ کی ایک گلی سے گز رہے تھے تو ایک نوجوان قریب سے گانا گاتا ہو ا گزرا نبی پاکؐ نے اسے مخاطب کر کے فرمایا کہ نوجوان افسوس ہے کہ تم قرآن کریم ترنم سے کیوں نہیں پڑھتے یہ جملہ آپؐ نے کئی دفعہ دہرایا گانے کی طرح قوالی کا بھی یہی حکم ہے جو لوگ سمجھتے ہیں گانا سننا گناہ مگر قوالی سننا جائز ہے بلکہ باعث اجر ہ وہ سراسر گمراہی کی طرف جارہے ہیں گانے کی نسبت قوالی سننا اور بڑا گناہ ہے کیوں کہ قوالی میں تمام شرکیہ باتیں ہوتی ہیں اس لیے یہ سمجھیں کہ قوالی میں ساز کے ساتھ شرکیہ اشعرا پڑھے جاتے ہیں یا شرک ہی گایا جاتا ہے حضرت عائشہؓ صدیقہ روایت کرتی ہیں کہ نبی پاکؐ نے ارشاد فرمایا کہ دو آوازیں ایسی ہیں جن پر دنیا و آخرت میں لعنت کی گئی ہے ایک خوشی کے وقت گانا بجانا وغیرہ اور دوسرا مصیبت کے وقت آہ و بکا کرنا نوحہ وغیرہ کرنا ۔حضرت انسؓ نبی پاکؐ سے نقل کرتے ہیں کہ آخر زمانہ میں میری امت کے کچھ لوگ بندر اور خنزیر کی شکل میں تبدیل ہو جائیں گے صحابہ کرامؓ نے عرض کیا اے اللہ کے رسولؐ کیا وہ اللہ تعالیٰ کی توحید اور آپؐ کی رسالت کا اقرار کرتے ہوں گے فرمایا ہاں اور نماز روزہ ،حج بھی کریں گے صحابہ اکرام نے عرض کیا اے نبی کریمؐ پھر ان کا یہ حال کیوں ہو گا فرمایا کہ آلات موسیقی یعنی گانے بجانے کا سامان رقاصہ عورتوں یعنی کنجریوں اور طبلہ اور سارنگی وغیرہ کے شیدائی ہوں گے اور شرابیں پیا کریں گے اور رات بھر اس کام میں مصروف رہیں گے فتح الباری حضور اکرم ؐ نے ارشاد فرمایا جو شخص گانا سنتا رہے جنت کے قاریوں کی آواز سننے سے روک دیا جائے گا جنت میں خود نبی کریمؐ بھی امت کو قرآن سنائیں گے بلکہ خود اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو قرآن سنائے گا لیکن وہ آدمی جو گانا سننے والا ہو گا محروم رہے گا کنزالعمال ۔ذرا سوچئیے کتنا بد نصیب ہو گا وہ شخص جو اللہ پاک کی آواز میں قرآن سننے سے محروم رہے گا گانے سننا دین اسلام کے ساتھ غداری اور تقابل بھی ہے نبی کریمؐ جب لوگوں کو قرآن سناتے تھے تو ایک کافر کنجریاں اور ناول وغیرہ اپنے گھر میں لے آیا کہ لوگ قرآن مجید نہ سنیں اور میرے گھر میں کنجریوں کے گانے اور کہانیاں سنیں گے آج بھی گانے بجانے کا سامان فراہم کرنا یہ سب قرآن پڑھنے اور روکنے کے مترادف ہے اس مرض میں عوام کی اکثریت مبتلاہے خصوصا نوجوان نسل اس تباہی کے گڑھے میں گرتی جارہی ہے اللہ تعالیٰ تمام مسلمانوں کو اس لعنت سے محفوظ رکھے اور نبی پاک ؐ کے اسوۃ حسنہ پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین ثم آمین

اپنا تبصرہ بھیجیں