؎سائنسی پراجیکٹ نمائش 2025پنجاب ڈگری کالج و سکول چاکرہ راولپنڈی

نہیں ہے نا اُمید اقبالؔ اپنی کشتِ ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹّی بہت زرخیز ہے ساقی


ہم اکثر اپنے معاشرے کی بے راہ روی کا ماتم کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ لیکن ماتم کرتے وقت ہم اس بے راہ روی کے ہونے کی وجوہات ڈھونڈ نے کی صلاحیت کو کھو دیتے ہیں،

کیونکہ کسی بھی مشکل یا مسئلے کا حل ڈھونڈنے کیلئے جذباتی عمل سے نکل کر سکون کے لمحے میں آنا بہت ضروری جی ہوتا ہے۔یہاں ہمیں یہ بات دیکھنی ہوگی کہ ایک معاشرے کی بناوٹ کس طرح سے مکمل ہو پاتی ہے۔ ہم اکثر معاشرے میں تبدیلی کو کہیں درمیان یا اوپر سے شروع کرنا چاہتے ہیں

لیکن ایک اہم بات بھول جاتے ہیں کہ معاشرے کی بنیاد کسی گھر میں پیدا ہونیوالے ایک بچے سے شروع ہوتی ہے۔بچہ جب بڑا ہوتا ہے تو وہ معاشرے کا نمائندہ بن جاتا ہے۔ اس لیے ہمیں معاشرے کے اصولوں کے ساتھ ساتھ اس کی بناوٹ کو اپنی نظر میں رکھنا نہایت ضروری ہے۔

کسی بھی چیز کی بناوٹ کیلئے بنیاد سب سے اہم ہے۔ کسی عمارت کی تعمیر ہی کو دیکھئے کہ اس کی بنیاد کتنی اہم ہے، جس قدر اس کی بنیاد مضبوط اور گہری ہوگی اسی قدر یہ عمارت مضبوط اور بلند و بالا ہوگی بالکل اسی طرح ہم معاشرے کی تعمیر میں بچوں کو جس گہرائی اور گیرائی سے تربیت دیں گے معاشرہ اسی قدر خوبصورت اور u بنے گا۔

اس سے ثابت ہوا کہ کسی معاشرے کی تعمیر میں سب سے اہم عنصر ایک گھر میں پیدا ہونے والا بچہ ہے جسے ہم معاشرے کا ایک نمائندہ بناکر معاشرے میں بھیجتے ہیں۔ اس کی بناوٹ میں والدین، بھائی بہن اور خاندان کے دوسرے رشتے دار، اسکول، کالج، ارد گرد کے پڑوسی اور دوستوں کا بہت عمل دخل ہوتا ہے۔

جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایک شخص کی مکمل تعمیر میں کئی لوگ شامل ہوتے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود ایک بچے کو معاشرے کا ایک نمائندہ بنانے میں جو سب سے اہم کردار ہے وہ والدین کے بعد اسکول کا ہے۔

لیکن ابتدا بہرحال گھر سے ہی ہوتی ہے۔ جس دن بچہ جب اپنی ماں سے یا اپنے باپ سے ایک معصوم سا سوال کرتا ہے جو بظاہر والدین کیلئے ایک بالکل بے کار محسوس ہوتاہے، بس یہیں سے یہ بناوٹ کسی اور سمت جانے لگتی ہے اس لیے جو سب سے اہم بات ہے وہ یہ ہے کہ اس معصوم اور آپ کی نظر میں جو اہم نہیں ہے اس سوال کا جواب درست دیا جائے۔ یہ اتنا اہم ہے کہ اگر غور کریں تو یہیں سے معاشرہ کی بنیاد رکھی جاتی ہے

اب آپ کی ذمہ داری ہے کہ آپ بنیاد سیدھی رکھیں یا اسے ٹیڑھی کردیں۔ اس سے یہ بات ثابت ہوئی کہ گھر میں پلنے والا بچہ مستقبل میں معاشرے کا نمائندہ ہے اور اس کی جسمانی تربیت کے ساتھ ساتھ ذہنی تربیت نہایت ہی اہم ہے۔

اس لیے یہ ہمارا فرض ہے کہ بچے کے ہر سوال کو اہمیت دیں اور ہر سوال کا درست اور تحمل سے جواب دیں۔ اگر کوئی بچہ آپ سے پوچھتا ہے کہ چھت پر لگا پنکھا کیسے گھوم رہا ہے تو آپ یہ سمجھ کر کہ بچہ ابھی کیا سمجھے گا ان باتوں کو اس کے سوال کو نظر انداز نہ کریں بلکہ اس کے پوچھے جانے والے سوال پر خوشی محسوس کرتے ہوئے بچے کی ذہنی سوچ کا اندازہ لگاتے ہوئے.

اسے درست جواب دے کر سمجھائیں، ہوسکتا ہے کہ وہ اس وقت فوری طور پر نہ سمجھ پائے لیکن آپ سوچیں کہ آپ کے درست جواب نے بچے کو سوچنے کے ایک مثبت عمل میں ڈال دیا اوربچے کا یہ عمل ایک معاشرے کی مثبت بنیاد رکھنے میں پہلا قدم ثابت ہوتاہے۔

میں سمجھتا ہوں کہ کسی معاشرے کی مثبت بناوٹ کیلئے بچوں کے سوچنے کے عمل کو تیز اور مثبت جانب موڑنا ہی ایک کامیاب معاشرے کے بنیادی اصول میں شامل ہے۔

ہم اپنے معاشرے کو بہتر،مضبوط اور مثبت بنانے کیلئے اسکولوں میں دی جانیوالی تعلیم اور اس کے طریقے میں ایک بہت اہم اور انقلابی تبدیلی لائیں۔

بچوں کو طوطامینا کی طرح پوری کتاب رٹوانے کے بجائے سمجھ اور سوچ کے ساتھ پڑھنے پر توجہ دی جانی ہوگی۔ بچوں کو رٹانے کے عمل میں ڈال کر ہم بچوں سے سوچنے کی صلاحیت چھین لیتے ہیں جو ایک معاشرے کیلئے بہت مہلک عمل ہے۔ میں نے پرائمری اسکول کے ایسے بھی بچے دیکھیں ہیں

جنھیں طوطے کی طرح سبق رٹا دیا جاتا ہے لیکن جب ان سے پوچھو کہ یہ لفظ کہاں لکھا ہے تو وہ نہیں بتا سکتے ہیں۔ اس کی وجہ کیا ہے؟ اس کی وجہ یہی ہے کہ ہم نے بچوں سے سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت ختم کرکے اسے رٹو طوطا بنا دیا ہے

جو اس جانب توجہ دیتا ہی نہیں ہے کہ یہ لفظ کیا ہے، اس کا تلفظ کیوں ایسا ہے اور اس کے کیا معنی ہیں؟ بچوں کو یہ نہ سکھایا جائے کہ دو اور دو چار ہوتے ہیں بلکہ اسے بتایا جائے کہ وہ یہ جانے کے دو اور دو چار کیوں ہوتے ہیں؟۔۔ میں سمجھتا ہوں کہ تخلیقی صلاحیتوں کے بغیر اور تخلیقی سوچ رکھنے والے لوگوں کے بغیر مسائل حل نہیں ہوسکتے۔

پنجاب ڈگری کالج چاکرہ راولپنڈی میں طلباء و طالبات نے احسن انداز میں اپنے پراجیکٹ کو اس نمائش کے لیے تیار کیا۔بالخصوص چھوٹے درجات کے بچوں کا ذوق قابل دید تھا اس سے بچوں میں اجتماعی کام کا جذبہ بھی پیدا ہوتا ہے۔

مہمانوں نے طلباء کی صلاحیتوں کو بھی سراہا اور اس موقع پہ ادارے کے اساتذہ کو خراج تحسین پیش کیا گیا بالخصوص اس ادارے کے روح رواں محترم صفدر صاحب ومفتی عضمان شفیق صاحب و محترم زبیر صاحب و محترم عبدالکریم صاحب و میڈم مدیحہ کرن نذیر صاحبہ سمیت تمام انتظامیہ کا یہ انقلابی قدم بچوں کی تخلیقی صلاحیتوں کو پروان بخشنے میں اک سنگ میں ثابت طلباء و طالبات کے بنے ہوئے سائنسی ماڈلز بلکہ یوں کہوں شہ پارے۔۔

بڑی محنت کے بعد یہ منظر دیکھنے کو ملا بچے تخلیقی ذھن کے مالک پڑھائی فقط چند عبارات کو رٹ لینے کا نام نہیں ہے بلکہ عملی طور پہ کچھ کر گزرنا حقیقی فن ہے۔

ہمارے دیس کا المیہ یہ ہے یہاں فرنگ کے منحوس قدم جب لگے یہاں کے تعلیمی نظم کو تقسیم کر دیا گیا اور مشنری ادارے تعلیم کے میدان میں خاص ٹارگٹ کے لیے کود پڑے اور برطانیہ کو سستے کلرک پیدا کرنے کے لیے لارڈ منہ کالے کے نصاب کی

ترویج میں اس ملک کا تعلیمی قتل عام ہوا جس کی نظیر نہیں ملتی بڑا ہی تلخ موضوع ہے کیا لکھیں۔ذرا ماضی کی طرف جھانکیں اس قوم میں بڑے سائنسدان بڑے فلاسفر تھے جو عنقاء ہوئے یا قریب میں جو تھے ان کی قدر نہ ہو سکی۔تخلیقی ذھن کو ضائع نہ ہونے دیں آج کے البیرونی،ابن الہشیم،فارابی،ڈاکثر عبدالقدیر خان کو پروان چڑھائیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں