1,066

یہ عید تو پھر سے لوٹ آئی؟؟

شاہد جمیل منہاس/نعمان بولتا جا رہے تھا اور میں سنتا جا رہا تھا ۔درمیان میں،میں بولنا چاہتا تھا مگر میری آواز میرا ساتھ نہیں دے رہی تھی۔کیونکہ نعمان نے قصہ ہی کچھ ایسا چھیڑ دیا تھا کہ جس کو سنتے سنتے آنسوؤں کو پینا مشکل ہوتا جا رہا تھا۔ جان سے بھی پیارے رشتوں کے بچھڑنے کی باتیں بھلا کون خوشی سے سنتا ہے اور جب کسی کی ماں ہنستے مسکراتے کسی دن اچانک اپنے بیٹے،بیٹیوں اور پوتے پوتیوں کے ساتھ ساتھ پھول اور کلیوں جیسے نواسے نواسیوں کو اچانک الودع کہہ جائے تو وہ لمحہ کیسا لمحہ ہو گا یہ ہم سب خوب جانتے ہیں۔اس دن 16رمضان المبارک کی صبح سویرے جب میں نعمان کے پاس بیٹھا ماہ صیام اور عید کی باتیں کرنے لگا تو نعمان کو آنکھوں میں یک دم اترنے والی نمی کو عجیب انداز میں سمیٹتے ہوئے دیکھا۔ کہا جاتا ہے کہ انسان کو اپنے غموں کو ہلکا کرنے کے لیے ہمدرد کندھوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ رُکے ہوئے آنسو جب کبھی بھی زیاد ہ دیررکے رہیں تو قیامت خیز طوفان برپا ہو جایا کرتے ہیں۔ باتیں کرتے کرتے نعمان کہنے لگا کہ میری والدہ میرے چھوٹے بھائی سے بہت پیار کرتی تھیں اور ہم انہیں اکثر ماں بیٹی کہا کرتے تھے کہ جب دیکھو عورتوں کی طرح دونوں سر جوڑے قصے کہانیاں ایک دوسرے کو سناتے سنارتے رات گئے تک بیٹھے رہتے۔ اس نے بتایا کہ میری ماں اچانک ہم سے جدا ہو گئی اور وہ سب اتنا یک دم تھا کہ ہمیں سنبھلنے کا موقع بھی نہ دیا۔ کہنے لگا کہ میری والدہ نے میری بہن کو فون کر کے کہا کہ آج میری طرف آجاؤ بہت دل کر رہا ہے۔ لہذا وہ آگئیں۔والدہ بیمار تو کافی عرصے سے تھیں مگر اتنی زیادہ نہیں کہ ہم تشویش میں مبتلا ہو جائیں۔ اسی دن ان کی طبیعت کچھ خراب ہوئی تو ہم انہیں ہسپتال لے کر گئے اور دو چار گھنٹوں کے بعد واپس لے آئے کیونکہ وہ کافی بہتر تھیں۔ رات کو ہم نے دیکھا کہ میرے اور میرے بہن بھائیوں کے بچوں کی ایک ٹرین نما قطار ہمارے پاس سے گزر تے ہوئے امی کے کمرے کی طرف جا رہی تھی۔ اور وہ قطار جب گزر گئی تو پتا چلا کہ ان سب کو میری امی نے اپنے پاس بلایا ہے۔ مختصر یہ کہ انھوں نے بچوں سے پیار کیا اور انھیں کہا کہ اب سو جاؤ۔ اس دن والدہ کا اس انداز سے باری باری بچوں سے پیار کرنا کوئی نئی بات نہیں تھی لیکن انداز بہت مختلف تھا۔ کچھ دیر قبل انھوں نے چائے پی تھی اور جب میں ان کے پاس معصوم بچے کی طرح لیٹا ہوا تھا تو کہنے لگی کہ میں نے تھوڑی دیر پہلے دودھ پیا تھا اب کچھ کھانے پینے کو جی نہیں کر رہا۔ میں نے کہا ماں جی آپ نے دودھ نہیں چائے پی تھی۔ میں نے دیکھا کی میری ماں کی زبان ان کے دماغ کا ساتھ نہیں دے رہی تھی۔ لہذا میں نے انھیں کہا کی آپ آرام کریں۔عین اس وقت میں نے محسوس کیاکہ وہ نہیں چاہتی تھیں کہ میں ان سے دور جاؤں لیکن ہم کر بھی کیا سکتے ہیں کہ ہم انسانوں کو کبھی ایک دوسرے سے کم دوری پر رہنا پڑتا ہے تو کبھی اتنی طویل دوری کہ جس کا گمان بھی نہیں کیا جا سکتا۔اور اگر کبھی ایسا خیال آ بھی جائے تو سر کو زور سے جھٹکا دینے کے بعد ہمیں خود سے یہ کہنا پڑتا ہے کہ اللہ نہ کرے کبھی ایسا ہو۔ مختصر یہ کہ میں اپنی والدہ سے دعا لینے کے بعد اپنے کمرے کی طرف چل دیا۔ایک آدھ گھنٹے کے بعد مجھے محسوس ہوا کہ گھر میں زیادہ افراد کے بولنے کی آوازیں آرہی ہیں۔ میں باہر نکلا تو پتا چلا کہ میری ماں مجھ سے بہت دور جا چکیں تھی۔ اتنی دور کہ واپسی ناممکن تھی۔اس دن میں نے دیکھا کے نعمان بہانے بہانے سے مُسکرانے کی کوشش کر رہا تھا لیکن میں نے اسے بار بار ناکام پایا۔ میں نے موضوع بدلتے ہوئے اسے بتایا کہ ہمیں جب اپنے ولد گرامی بچپن ہی میں الوداع کہہ گئے تو وہ گھڑیاں بڑی بے رحم گھڑیاں تھیں۔ کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ اب کیا کیا جائے۔ بڑے بھائی نے حوصلے اور ہمت سے کام لیا اور ہمیں سمجھا یا کہ یہ بات ذہن نشین کر لو کہ ہمارے ابو اب اس دنیا میں نہیں رہے۔ ان کی وفات سے چند دن قبل میں فوجی فاؤنڈیشن ہسپتال میں رات کو ان کے پاس رکا تو مجھے اپنے پاس اشارہ کر کے بلایا اور اپنے سینے سے لگا کر کہنے لگے ”تم سب کا کیا بنے گا“۔بجائے ان کو تسلی دینے کے میں رونے لگا۔میرے ابو مجھ سے کہنے لگے کہ میں تو ویسے ہی گپ شپ کر رہا ہوں آ پ تو بچوں کی طرح رونے لگے۔ان کی میت جب میرے سامنے آئی تو مجھے ان کا وہ جملہ بار بار یاد آ رہا تھا کہ ”تم سب کا کیا بنے گا“جماعت اسلامی کے فعا ل رکن شفیق الرحمن عباسی صاحب کی وفات کی خبر کا وہ لمحہ شائد مرتے دم تک میں نہ بھلا سکوں۔ ان کی وفات کے چند لمحوں بعد ان کے اپنے ٹیلی فون سے مجھے فون آیا تو میں نے یک دم سلام کر کے کہا کہ خیریت تو ہے؟ لیکن میرے سوال کے جواب میں ان کے بیٹے حبیب الرحمن کی آہوں اور سسکیوں میں چیختی اور چلاتی آواز میرے
کانوں میں پڑی۔ حبیب کا جملہ یہ تھا ”شاہد ابو فوت ہو گئے ہیں“ اس کے بعد فون بند ہو گیا اور میں خود سکتے کی سی کیفیت میں چلا گیا کیونکہ ایک دن قبل ہی وہ مجھ سے ملے تھے۔ اس عظیم انسان کی اچانک موت مجھ جیسا گناہ گار کبھی نہیں بھلا سکتا تو حبیب اور اس کے گھر والے بھلا کیسے بھلا سکتے ہیں۔ خطہ پوٹھوہار کی ایک شریف النفس شخصیت راجہ محمد بشیر کی وفات کے دس برس گزر جانے کے باوجود ان کے ملنے والے اکثر یہ بتاتے ہوئے رو پڑتے ہیں کہ”مرحوم راجہ بشیر روزگار تقسیم کیا کرتے تھے“۔ ان کی اہلیہ اورساس محترمہ سے جب بھی ان کے بارے میں بات ہوئی تو وہ ہمیشہ یہ جملہ بول کر رو پڑتی ہیں کہ”میرا میاں ایک عظیم انسان تھا“۔ اور پھر اس کے بعد آنسوؤں کا سیلاب انھیں مزید بولنے نہیں دیتا۔ آمنہ مسعود جنجوعہ کے دونوں بیٹے میرے شاگرد رہ چکے ہیں۔ میں نے جب بھی ان سے پوچھاکہ آپ کے ابوکا کچھ پتا چلا؟ تو ہمیشہ کہتے ہیں کہ وہ جلد ہی آ جائیں گے انشا اللہ۔حا لانکہ بہت سی عیدیں وہ اپنے والد مسعود جنجوعہ کے بغیر گزار چکے ہیں۔ آمنہ مسعود جنجوعہ بتاتی ہیں کہ عید پر وہ نئے کپڑے نہیں پہنتے کہ اس طرح وہ اور زیادہ یاد آتے ہیں۔ آج اگر ہم ا پنے ارد گرد نظر دوڑائیں تو پتا چلتا ہے کہ ہر کوئی اپنے پیاروں کی جدائی میں اشک بار ہے۔ یہ کہانی گھر گھر کی کہانی ہے۔ سوچنا یہ ہے کہ اگر ہم اپنے کسی ایک پیارے یا خونی رشتے کی جدائی پر اتنے غمگین ہیں کہ عید کے نئے کپڑے خریدتے ہوئے ہر لمحہ ان کی یاد ستا تی ہے۔ اگر کسی کی اولاد میں سے کوئی چل بسا ہے تو وہ والدین بھلا آنے والی تمام عیدیں کیسے گزاریں گے؟ اور اگر کسی کے والدین یا عمر سے بڑا اسے چھوڑ کر اس دنیا سے چل بسا ہے تو وہ دعائیں کہا ں سے آئیں گی کہ جن کے ہونے سے تمام مصیبتیں ٹل جایا کرتی تھیں۔اور ہاں والدین اوربچھڑے ہوئے پیاروں کے بغیر عید پڑھی تو جا سکتی ہے عید منانا بہت مشکل لگتا ہے۔ آج کشمیر،شام اور فلسطین کے مسلمانوں کی ہمت اور حوصلے کی داد دینا ہو گی کہ تن تنہاگھر کا ایک فرد پورے خاندان کی میتیں ایک ایک کر کے دفنانے پر مجبورہے۔ ہمارے رمضان المبارک اور ان کے رمضان کی سحر و افطار کا سماں کیا ہو گا؟ ان والدین کی عید بھلا کیسے گزرے گی جنہوں نے اپنے پھول جیسے بچے بے ضمیروں کے ہاتھوں گولیوں سے چھلنی ہوتے ہوئے دیکھے اور پھر اپنے ہاتھوں سے کچھ کو دفنا دیا اور کچھ مل نہ سکے۔ اہل اسلام سے میرا یہ سوال ہے کہ کیا آج ہم اپنے ان مسلمان بھائیوں کے غم میں شریک ہو رہے ہیں یا نہیں؟ چلیں مل کر اپنا احتساب کرتے ہیں۔
یہ عید تو پھر سے لوٹ آئی
جو بچھڑ گئے کب لوٹیں گے
وہ جن سے گھر کی رونق تھی
وہ کیسے ہم سے دور ہوئے
وہ چاند سا جن کا چہرہ تھا
وہ آنکھوں سے کیوں دور ہوئے
جب یاد ہمیں وہ آئیں گے
ہم کیسے آنسو روکیں گے
ٰٰٰٰٰٓٓٓیہ عید تو پھر سے لوٹ آئی
جو بچھڑ گئے کب لوٹیں گے؟

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں