198

یوسف رضا گیلانی کا ہار اور ملکانی بیگم/ مسعود جیلانی

ترک وزیرِ اعظم کی اہلیہ کی طرف سے سیلاب زدگان کو تحفے میں دیا گیا ہار غائب کر دیا گیا سابق وزیرِ اعظم سید یوسف رضا گیلانی نے اس ہار کی اپنے پاس موجودگی کی تصدیق بھی کر دی ہار کیسے غائب ہوا اور کیسے کہاں منتقل ہوا اس بات کی فوری انکوائری کے لئے وزیرِ داخلہ جناب چوہدری نثار علی خان نے وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے کو حکم دیا ہے بہت اچھی بات ہے

اگر کوئی کسی ملکی امانت میں خیانت کرتا ہے تو اس کی تحقیقات کر کے اسے قرار واقعی سزا بھی دینی چاہئیے وزیرِ داخلہ جناب چوہدری نثار علی خان بڑ ے چاک و چوبند آدمی ہیں اپنے معاملات کو بڑی ذمہ داری اور مستعدی سے نبھاتے ہیں حال ہی میں ایگزیکٹ کے معاملہ میں بھی جناب چوہدری نثار علی خان نے تحقیقات میں ایک ایک نقطے پر بڑی باریک بینی سے نظر رکھی چوہدری نثار علی خان کی ذہانت کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ اپنے دونوں حلقوں میں بھی لوگوں کے معاملات سے بخوبی واقفیت رکھتے ہیں اور ان پر نظر رکھتے ہیں جس طرح چوہدری صاحب نے ہار کے معاملے میں فوری تحقیقات کا حکم دیا ہے اسی طرح میں ملکانی بیگم کے واقعہ کا ذکر کرتا ہوں جس کا تعلق چوہدری نثار علی خان صاحب کے حلقۂ انتخاب سے بھی ہے اور کیس کے متعلق جناب چوہدری نثارعلی خان اور ان کے کچھ کارکنوں پر بھی انگلیاں اٹھتی ہیں

چک بیلی خان کے نواحی موضع لڈوا میں ملکانی بیگم نام کی ایک عورت لگ بھگ پندرہ سال قبل غائب ہو گئی جس کے اغوأ اور بعد میں قتل کا مقدمہ چوہدری نثار علی خان کی مخالف جماعت کے ایک ووٹرموضع رنوترہ کے ٹرانسپورٹر ملک امیر خان اور سابق چئیر مین ملک محمد تاج کے خلاف درج کر دیا گیا تھانہ ڈھڈیال کے علاقے سے ایک عورت کی جلی ہوئی لاش برآمد ہوئی جسے ملکانی بیگم کے گھر والوں نے شناخت کیا لاش کا پوسٹ مارٹم کروایا گیا اور لاش ملکانی بیگم کے ورثأ کے حوالے کر دی گئی جس کا جنازہ پڑھ کر اسے موضع لڈوا میں سپردِ خاک کر دیا گیا اس کے بعد چوتھے چالیسویں بھی ہو گئے مقدمہ چلتا رہا

ملک امیر خان اور چئیر مین تاج تین سال تک جیل میں رہے چونکہ موت خدا کے ہاتھ میں تھی اس لئے چئیر مین تاج اور ملک امیر خان پھانسی لگنے سے بچ گئے اورجیل سے گھر آ گئے مگر دونوں عملی طور پر مر چکے تھے کیونکہ دونوں کو مقدمات نے اس حد تک کنگال ہونے کی حد تک پہنچا دیا تھا کہ جو لوگوں کو دینے والے تھے وہ اپنا وقت بھی عزّت سے گذارنا مشکل سمجھ رہے تھے دوسرا دونوں کو لوگ قاتل کی حیثیت سے دیکھتے تھے وہ اپنے ناکردہ گنا ہ کی وجہ سے لوگوں کی نظروں میں گر چکے تھے یہ دنیاوی حاکم ہی تھے جن کے انصاف نے انہیں یہاں تک پہنچایا تھا لہٰذا اس سے مایوس ہو کر انہوں نے حقیقی مالک ومنصف سے انصاف مانگا پس ا س نے انہیں انصاف دیا کہ اچانک ہی انہیں علم ہوا کہ جس ملکانی بیگم کے قتل میں وہ جیل کاٹ کر آئے ہیں وہ زندہ ہے اورشبیر مصلّی نامی آدمی کے ساتھ بھاگ کر گئی تھی اب جہلم کے کسی علاقے میں کسی مقدمہ میں گرفتار ہو چکی ہے ملک امیر خان فوراً وہاں پہنچا اور دیکھا کہ یہ تو وہی ملکانی بیگم ہے جس کے قتل میں وہ جیل بھی کاٹ چکا ہے

ملک امیر خان نے اپنا مقدمہ بھی سامنے رکھا ملکانی بیگم اس مقدمہ سے نکل کر اپنے اصل گھر لڈوا واپس آ گئی جہاں پہلے سے ایک ملکانی کی لاش دفن تھی ملکانی کے ورثأشرم سے منہ چھپائے پھر رہے تھے البتہ ملک امیر خان اور چیئر مین تاج عوام کے سامنے اپنی بے گناہی ثابت کرنے میں کامیاب ہو چکے تھے اپنی خوبصورت جوانی میں مصلی کے ساتھ بھاگنے والی ملکانی بیگم بڑھاپے میں بلا کی شکل میں واپس آکر اپنے گھر میں گذارا کرنے لگی مگر جو بلا پہلے دو آدمیوں کو جیل سلاخوں کے پیچھے اور تختۂ دار کے قریب لے کر گئی اب واپس آکر اس نے اس مرحومہ کو تلاوتِ کلامِ پاک کے ایصالِ ثواب اور دعائے مغفرت سے محروم کر دیا جسے اس ملکانی کے ورثا ملکانی قرار دے دفن کر چکے تھے ملک امیر خان کو قتل میں ملوّث کرنے والا ایس ایچ او مہر نذیر اپنی اس شاندار نوکر ی پر ڈی ایس پی کے عہدے پر پہنچ گیا مگر کسی نے اس کا احتساب نہ کیا حالانکہ ملکانی کے برآمد ہونے کی تمام خبریں پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر بھی آتی رہیں مہر نذیر ہارٹ اٹیک سے فوت ہو گیا تو میں نے ملک امیر خان کو کہا کہ اس کو معاف کر دیں لیکن ملک امیر خان نے کہا کہ میں روزِ قیامت اس کا گریبان پکڑوں گا

یہ تمام واقعات گذشتہ پندرہ سال کے دورانیئے میں ہوئے اس دوران جناب چوہدری نثار علی خان مسندِ اقتدار پر بھی رہے ملک امیر خان کے گاؤں سے ووٹ بھی لئے ان حالات سے واقفیت بھی تھی لیکن نہ جانے کیوں انہوں نے ملک امیر خان اور چیئرمین تاج کے آنسو پونچھنے کی کوشش نہ کی لیکن چوہدری صاحب کو کیا پروا ان پر تو اللہ کا کرم ہے وہ پھر بھی منتخب ہوجاتے ہیں کیا پتا جس چیز کو چوہدری نثار علی خان اللہ تعالیٰ کا کرم سمجھ رہے ہوں یہ ان پر اللہ تعالیٰ کی آزمائش ہو اب بھی چوہدری صاحب ذرا سوچئیے جس طرح آپ پر انگلیاں اٹھ رہی ہیں ا س میں اندر کی حقیقت خدا ہی بہتر جانتا ہے اگر سچ ہے تو خدا سے معافی مانگیں اور اگر آپ کی طرف اٹھنے والی انگلیاں غلط ہیں تو بحیثیت وزیرِ داخلہ بھی آپ ان چہروں کو بے نقاب کر سکتے ہیں جنہوں املک امیر خان ، ملک تاج اور ان کے خاندانوں کو برسوں اس اذیت میں مبتلا رکھاّ آپ ملکانی کے ورث أ کو بھی کٹہرے میں لائیں جو اپنی ماں بہن کو ہی نہیں پہچان سکے اور نجانے کس کو قبر میں دبا کر بیٹھے ہیں جس کے ورثأ ابھی تک اس کو ڈھونڈ رہے ہوں گے یاد رکھیئے یہ یوسف رضا گیلانی کے ہار سے بڑا معاملہ ہے جس کے لئے آپ قیامت کے دن جوابدہ ہوں گے{jcomments on}.

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں