47

ہم نے تاریخ سے کو ئی سبق نہیں سیکھا

جب تو پوں کی گھن گرج سنائی دیتی ہے توصرف بارودہی نہیں گرتابلکہ انسانیت کی امیدیں بھی خاک میں مل جاتی ہیں۔ پاکستان اور ہندوستان کے درمیان حالیہ جھڑیں جسے تین دنوں کی جنگ کہاجارہاہے ایک ایسا لمحہ تھاجب دنیا ایک بار پھر ایٹمی تباہی کے دہانے پر کھڑی دکھائی دے رہی تھی اور اب جو خاموشی قائم ہو ئی ہے وہ ایک عسکری توقف کے علاوہ انسانیت کی آخری پکار بھی ہے اگر یہی سیزفائر نہ ہوتا اگر جنگ کی آگ کو وقت پر بجھایانہ جاتا تواس کے شعلے نہ صرف لاہور،دہلی،سری نگر اور بمبئی کو جھلسا دیتے بلکہ پورے خطے اور پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیتے ہم جوبرصغیر کے باسی ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ جنگ کبھی ہمارے آنگن سے دور نہیں رہی۔ 1947ء سے اب تک کئی جنگیں لڑی جاچکی ہیں کتنے بچے یتیم،کتنی خواتین بیوہ ہوگئیں۔ ماؤں سے ان کے بیٹے چھین لئے گئے اور ان دونوں ممالک کے عوام غربت کی چکی میں پس رہے ہیں ۔

کیا ہم نے اب تک کچھ نہیں سیکھا؟ جنگیں جب لڑی جاتی ہیں تونقصان عام آدمی کا ہوتا ہے مگر اس بار دنیا نے جس شدت سے اس کشیدگی کو محسوس کیا وہ اس لئے کہ دونوں ممالک ایٹمی طاقتیں ہیں اور آج کی دنیا میں اگر کوئی ایک ایٹمی مزائیل حرکت میں آتا ہے تواس کی گونج صرف سرحدوں تک محدود نہیں رہتی چین ترکی یہاں تک کہ وہ امریکہ بھی ایک دم متحرک ہو گئے یورپی دارلحکومتو ں میں خفیہ اجلاس روس کے میڈیا میں فکر مندی اور جاپان سے لے کر آسٹریلیاتک نیوز رومز میں اضطراب،یہ سب کچھ اس لئے کہ دنیا جانتی ہے کہ پاکستان اور ہندوستان اگر جنگ میں الجھ گئے تو یہ تیسری عالمی جنگ کی پہلی چنگاری ہو سکتی ہے۔

پاکستان نے ہندوستان کی جارحیت کا جواب دیا ہندوستان نے الزام لگایا لیکن اصل بات جو وقت نے ثابت کی وہ یہ ہے کہ دونو ں ممالک کو اب سنجیدگی سے سوچنا ہو گا کہ یہ صرف ایک سیز فائر نہیں بلکہ یہ وقت کی طرف سے ایک آخری مہلت ہے اور اگر ہم نے اب بھی نفرت اور جنگی جنون کو لگام نہ دی تو اگلی بار یہ مہلت نہیں مل سکے گی۔ امن کی راہ کمزوری کا انتخاب نہیں شعور والوں کا فیصلہ ہوتا ہے جو قومیں تاریخ سے سبق لیتی ہیں وہ بندوق کو نیام میں رکھ کر قدم اٹھاتی ہیں۔ ہمیں وہی راستہ اپناناہوگا سیزفائر کے بعدہمیں جنگ کی نفسیات کو جڑ سے اکھاڑنا ہو گا ہمیں اپنی کتابوں اپنے سکولوں اپنے میڈیا اور اپنے سیاستدانوں سے یہ پوچھنا ہے کہ کیوں ہم بار با ر نفرت کے بیج بوتے ہیں؟ کیوں ہم اپنی نسلوں کو دوسرے کی تباہی میں خوشی تلاش کرنے کی تربیت دیتے ہیں کیوں ہماری سرحدیں صرف فوجی نقطہ نظر سے دیکھی جاتی ہیں انسانی نقطہ نظر سے نہیں؟بر صغیر کے پاس دنیا کو دینے کے لئے تہذیب علم و ادب اور فن کی ہزاروں سالہ تاریخ ہے مگر ہم نے اسے جنگی سیاست کی گرد میں چھپارکھا ہے آج وقت ہے کے ہم اپنی اصل پہچان اپنے انسان ہونے کی پہچان کو زندہ کریں ہمیں امن کی بات کرنی ہے مگر ایک نئی زبان میں ایسی زبان جو خوف سے نہیں حوصلے اور عمل سے بوئی جائے ایسی بات جو کمزوری سے نہیں شعور اور دور اندیشی سے بوئی جائے۔

جنگ کبھی بھی کسی مسئلے کا حل نہیں ہوتی یہ صرف نئے مسائل پیدا کرتی ہیں اور جب غزہ کے بچوں اور یوکرین کے پناہ گزینوں کی طرف نظر دوڑا ئی جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ اگر ہم بھی نہ سنبھلے تویہ خطہ بھی ایسی ہی بربادی کا استعارہ بن جائے گا یہ سیز فائر ایک آخری موقع ہے ہمیں مکالمے معاہدہ عوامی رابطوں ثقافتی تبادلوں تجارت اور تعلیمی تعاون کی نئی بنیاد رکھنی ہو گی ہماری دشمنی کی نہیں زمین پر اب نئی فصل کاشت کرنی ہوگی امن کی فصل۔ورنہ توپوں اور میزائیلوں کے شعور میں صرف دشمن کی نہیں ہماری اپنی نسلوں کی آواز یں بھی دب جائیں گی جنگیں صرف ہتھیاروں سے نہیں لڑی جاتیں وہ لفظوں نظروں اور پراپیگنڈ ے سے بھی لڑی جاتی ہیں ہمارے میڈیا اور ہمارے رہنماؤں نے اور پھرافسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے تعلیمی نظام نے بھی نفرت کے ایسے بیچ بودئیے ہیں۔ جن کی فصل ہمیں ہر چند سال بعد جنگ کی صورت میں کا ٹنی پڑتی ہے ہم نے اپنی نسلوں کو سکھایا کہ دشمن کی تباہی ہماری فتح ہے۔

ہم نے انہیں یہ کہاکہ انسانیت کی بقاء ہی اصل کا میابی ہے یہ خاموشی جو اب قائم ہے یہ کوئی فتح کی گواہی نہیں یہ ایک ہار ہے۔ہمارے عقل دانش اور ضمیر کی ہار کیونکہ اگر ہم واقعی جیت گئے ہوتے تو ہمیں ہر بار سیز فائر کی بھیک نہ مانگنی پڑتی ہمیں دنیا میں ثالثی کے لئے دروازے نہ کھٹکھٹا نے پڑتے جب بھی پاکستان اور ہندوستا ن کے درمیان جنگ کا طبل بجتا ہے اس کی گونج صرف سرحدوں تک محدود نہیں رہتی بلکہ ہر گلی ہر محلے ہر گھر میں سنائی دیتی ہے۔ یہ جنگیں چاہے چند دنوں کی ہوں یامہینوں پر محیط ہوں ان کا سب سے بڑا بوجھ عام آدمی اٹھا تا ہے وہ کسا ن جو کھیتوں میں ہل چلاتا ہے وہ مزدور جو فیکٹری میں کام کرتاہے وہ ماں جو اپنے بیٹے کی سلامتی کی دعاکرتی ہے وہ بچہ جو خوفزدہ ہو کر سوال کرتاہے کہ جنگ کیوں ہوتی ہے یہ سب اس المیے کا حصہ ہوتے ہیں جیسے ہم جنگ کہتے ہیں جب جنگ ہوتی ہے تو صرف فوجی محاذ پر لوگ نہیں مرتے بلکہ زندگی کے ہر شعبے پر اس کا اثر پڑتا ہے معیشت کمزور ہوجاتی ہے تعلیمی ادارے بند ہو جاتے ہیں مہنگائی اور بے روزگاری بڑھتی ہے اور بے یقینی کا عالم چھا جاتا ہے جوسرحد کے قریب بستے ہیں ان کے لئے ہر دن زندگی اور موت کے بیچ کاایک پل ہوتاہے۔جنگ کی صورت میں پاکستان اورہندوستان کے لوگ خوف غم اور غیر یقینی میں مبتلا ہو جاتے ہیں جب لاہور سیالکوٹ بمبئی یا دہلی میں حملے ہوتے ہیں یاسرحد پر فوجی مارے جاتے ہیں تو والدین تڑپتے ہیں اور بچے یتیم ہو جاتے ہیں جنگ کی آگ دونوں طرف کے میڈیا میں جوش و خروش لاتی ہے لیکن اس شور میں انسانی المیہ دب جاتا ہے جنگ کا سب سے بڑا نقصا ن یہ ہے کہ وہ نسلوں کے درمیان نفرت کا بیچ بو دیتی ہے اسکولوں میں پڑھائے جانے والے نصاب ٹی وی پر چلنے والے تبصرے اور سیاست دانوں کی تصویر یں ایسی فضاقائم کرتی ہیں جس میں دشمن صرف سرحد کے ہیں پار کا نہیں ہوتا بلکہ ہر اس شخص کو دشمن سمجھا جانے لگتا ہے جو امن کی بات کرے یوں انسان،انسان سے کٹ جاتا ہے اور انسانیت پستی چلی جاتی ہے جب کبھی دونوں ممالک کے درمیان کچھ بہتری کی امید پیدا ہوتی ہے ہوئی امن معاہدہ کوئی کرکٹ سیریز یا کوئی ثقافتی تبادلہ تو عوام میں بھی ایک تازگی ایک خوشی کی لہر دوڑتی ہے لوگ چاہتے ہیں کہ وہ عام زندگی گزار یں اپنے بچوں کو بہتر مستقبل دیں اور نفرت کی دیواروں کو توڑکر ایک دوسرے کو انسان کی حیثیت سے دیکھیں مگر افسوس کہ یہ امیدیں بار بار ٹوٹ جاتی ہیں کیونکہ جنگ کا کاروبار کرنے والے طاقتور اور منظم ہیں اور ان کا فائدہ جنگ اور نفرت میں ہوتا ہے جنگوں سے کوئی مسئلہ حل نہیں ہوتا بلکہ نئے مسائل جنم لیتے ہیں اگر دونوں ممالک پاکستان اور ہندوستان اپنی توانائی تعلیم صحت تجارت اور انسانی ترقی لگائیں تو کروڑوں لوگوں کی زندگی بہتر ہو سکتی ہے مگر جب تک جنگ کو بہادری اور امن کو کمزوری سمجھا جاتا رہے گا تب تک عام لوگ اسی طرح اذیت سہتے رہے گے اور غیرت جہالت اور بے شعوری کے اندھیروں سے کبھی باہر نہیں نکل سکیں گے۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں