پروفیسر محمد حسین/ہم کیا ہیں؟ ہم اس دنیا میں کیوں بھیجے گئے؟ ہم دوسری قوموں سے کیوں برتر ہیں؟ اس کے باوجود کہ ہم دوسرے تمام مذاہب کے ماننے والوں سے بہترین قوم ہیں ہم دوسروں کی تقلید کیوں کرتے ہیں؟ ہمارے پاس مکمل ضابطہ حیات موجود ہے لیکن پھر بھی ہم دوسری قوموں کے طریقوں پر چل رہے ہیں ہماری پہچان مسلمان،ہم ایک امت جسے امت وسط کہا گیا ہم ایک اللہ ایک قرآن اورایک دین کے ماننے والے ہمارے آخری پیغمبر آنحضرت محمد ؐ خاتم النبین جن پر دین مکمل کر دیا گیا ہمارا دین قرآن و سنت سے ٹکراتی ہو اس کو چھوڑ دیں نہ مسلک کی تبلیغ کریں نہ ان دوراستوں قرآن و سنت سے ہٹ کر کسی بات کو تسلیم کریں ہمیں اپنے دینی تصور کو مضبوط بنانے کی ضرورت ہے سب سے پہلے ہم نماز کی اہمیت کو سمجھ لیں کیونکہ جس وقت کوئی فرد بھی دین اسلام میں داخل ہوتا ہے تو اسکی سب سے پہلی آزمائش نماز سے ہوتی ہے اسے دین میں شامل ہوئے کچھ ہی دیر ہوتی ہے کہ اذان کی آواز اسے کانوں میں سنائی دیتی ہے کہ آو نماز کی طرف،آو فلاح کی طرف،اب وہ دنیا کے سارے کاموں کو چھوڑ کر مسجد کی طرف چل پڑے گا اور جو دین اسلام کو نہیں مانتا یعنی منکر اور کافر ہے وہ اپنی جگہ سے ٹس سے مس نہیں ہوتا ایک حدیث پاک میں مومن اور کافر کے درمیان فرق نمازکو بتایا گیا ہے دنیا میں جتنے انسان بستے ہیں وہ دو گروہوں میں تقسیم ہیں ایک مسلمان اور دوسرے کافر یعنی دین اسلام کو نہ ماننے والے اس لیے دنیا میں محبت کو بھی دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے یعنی ایک اللہ اور اس کے رسول ؐ سے محبت کرنے والے لوگ اور دوسرے شیطان اور اس کے چیلوں سے محبت کرنے والے لوگ جو رحمان اور اس کے رسولوں کو ماننے والے ہیں وہ اللہ کے بھیجے آخری پیغمبر حضرت محمدؐ کو بھی دل و جان سے زیادہ عزیز رکھتے ہیں اور ان کا ہر پختہ عقیدہ ہے کہ اب کوئی نبی یارسول نہیں آئے گا اس لیے ہمیں قرآن و سنت کی پیروی کرنی چاہیے اور جب اس طرف سچے دل سے پیشرفت کریں گے تو فلاح و و کامیابی کا رستہ پا لیں گے مگر اس کا میں استقامت کی بہت ضروری ہے کیونکہ شیطان اس رستہ سے ہٹانے کے لیے ایڑھی چوٹی کا زور لگا دیتاہے انسان جب راہ راست پا لیتا ہے تو دنیا والوں کے لیے اجنبی بننا شروع ہو جاتا ہے کوئی اس کو ملنگ سمجھنے لگ جاتا ہے کوئی مجنوں اور کوئی سمجھتا ہے کہ شاید اس کے دماغ کی کوئی کل ٹیڑھی ہو گئی ہے اس کا ڈاکٹر سے علاج کراو یہ ٹخنوں سے اوپر شلوار کر کے طالبان بنتا جارہا ہے؟کوئی یہ نہیں سوچتا کہ یہ تو اللہ اور اس کے رسول ؐ کے احکامات کی پیروی کر رہا ہے ہم جب ایسے شخص کا مذاق اڑاتے ہیں تو یہ نہیں خیال کرتے کہ ہم دین کی طرف آنے والے اللہ کے بندے کا مذاق نہیں اڑا رہے بلکہ ہم تو اللہ کے رسول ؐ کی سنت کا مذاق اڑا رہے ہیں اس لیے ہمیں ٹھنڈے دل سے سوچنا چاہیے کہ ہم خود کس راستے پر چل رہے ہیں یہ فلمیں یہ گانے اور ڈرامے اور یہ کھیل کود میں ہمارا زیادہ وقت گزارتا ہے اور ہم رحمن کی بندگی کر رہے ہوتے ہیں یا شیطان کی ہم چوبیس گھنٹوں میں سے کتنے گھنٹے اللہ کو راضی کر نے کے لیے گزارتے ہیں اور ہمارا کتنا وقت شیطانی کاموں میں گزرتا ہے جب ہم مسلمان ہیں جب ہم تمام امتوں سے بہترین امت ہیں ہمارے پاس ایک ایک قدم پر رہنمائی کے اصول موجود ہیں تو ہم پھر اپنی اچھی باتیں چھوڑ کر دوسروں کی غلط باتوں کو کیوں اپناتے جار ہے ہیں انسان کا یہ طریقہ رہا ہے کہ وہ کہتا ہے کہ جو کام ہمارے باپ داد کرتے آئے ہیں ہم وہ کیسے چھوڑ سکتے ہیں یا جو ساری دنیا کر رہی ہے وہ ہم کیوں نہ کریں اس جواب میں کوئی دلیل نہیں ہوتی ہم بسنت اس لیے مناتے ہیں کہ یہ ہمارا کلچر بن چکا ہے اب چاہے کسی کی گردن کٹے یا کوئی حادثہ کا شکار ہوجائے یا کوئی کئی کئی منزلہ عمارت سے گر کر مر جائے ہم تو اپنے اس کھیل کو بند نہیں کر سکتے اگر اس طرح کی سوچ ہماری بن جائے گی تو ہماری پہچان کہ ہم سب سے پہلے مسلمان پھر ایک کلمہ کے ماننے والے ایک آخری نبی ؐ خاتم النبین ؐ کی امت اور تمام امتوں میں برتر امت ہیں اور ہمیں دنیا میں اس لیے بھیجا گیا ہے کہ ہم اپنے دین پر مکمل طریقے سے عمل کریں لوگوں کو نیکی کی طرف بلائیں اور برائی سے روکنے کی کوشش کریں پھر صبر کے دامن کو ہاتھ سے نہ چھوڑیں جب ہم اپنی زندگی کا جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں زبانی ایمان کا دعویٰ ہی نظر آتاہے ہمارا عمل اللہ کے احکامات اورنبی کریم ؐ کے طریقوں کے مطابق کہیں نظر نہیں آتا یہی وجہ ہے کہ ہر جگہ ہم مسلمان‘ کافروں کے طریقوں کی پیروی کرتے نظر آتے ہیں ہماری شادی بیاہ کی رسومات‘ ہماری وراثت کی تقسیم کے معاملات مجموعی طور پر طور پر ہماری معاشرے ہمارا لین دین کوئی چیز بھی شریعت کے احکامات کے مطابق نہیں ہے ہماری مجموعی سوچ سیکولر ازم کے قریب ہوتی جارہی ہے ہمیں اپنے دین اسلام کے مطابق اپنی زندگی کو ڈھالنے کی بھرپور جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے ورنہ اغیار کا تسلط ہم پر قائم ہوتا جائے گا اور ہم اپنی دنیا داری میں مست ہو کر اپنی حقیقت کو بھلا بیٹھیں گے اور اسی وجہ سے ہم دنیا میں رسوا اور ذلیل وخوار ہوتے رہیں گے ہمارے پاس جب علم کا نور قرآن و سنت موجود ہے تو ہم خود اس سے استفادہ کیوں نہیں کرتے ہیں
287