391

ہمارا معاشرہ اور فضول رسم و رواج

مسلم معاشرے جو کبھی ترقی فلاح انسانی ہمدردی کا مرکز تھا آج یہ چیزیں ناپید ہوچکی ہیں یوں تو اللہ کی واحدنیت اور بندگی کا پیغام نسل انسانی کے باپ حضرت آدم علیہ السلام سے شروع ہوا تھا جبکہ اللہ تعالی نے اپنے اس پیغام کو دین ابراہیمی کے ذریعے نبی آخر زماں حضرت محمد پہ مکمل کیا اور دنیا میں زندگی گزارنے کیلئے مشعل راہ بنادیا۔ تاریخ اس چیز کی شاہد ہے کہ دین اسلام پوری دنیا تک پھیلنے اور اپنی فتوحات کا جھنڈا گاڑنے تک اس وقت کے مومنین، علماء، فقہا، حکمرانوں اور معاشرے کے ہر شخص کی زندگی میں پوری طرح داخل ہوچکا تھا چاہے وہ معاشرتی آداب ہوں،

اخلاقیات ہوں یا عبادات ہوں یا عملی اقدامات۔آج معاشرے میں دیکھتے ہیں کہ لاانتہا ترقی اور سہولیات اور بالخصوص دینی علم کی باوجود ہم فضول دنیاوی رسم و رواج میں بری طرح پھنس چکے ہیں بلکہ کہنا چاہئیے ہم نے خود نمائی اور پرستی میں خود کو پھنسا لیا ہے۔ دین اسلام زندگی گزارنے کا بہترین نمونہ ہے لیکن آج ہم اسلامی اقدار رسم و رواج کو بھولائے بیٹھے ہیں۔آج ہم اِس معاشرے میں سانس لے رہے ہیں جہاں شادی بیاہ اور خوشی غمی میں فضول رسم و رواج کی پیروی میں معاشرتی و معاشی زندگی کو خطرناک حد تک متاثر کیا ہے۔ دنیا میں آئے تمام انسان موت کے
ذریعے اگلی دنیا میں انتقال کرتے ہیں، شریعت میں ہر رشتے کیلئے احکام نازل ہوئے ہیں۔ تین دن تک سوگ جائز قرار دیا ہے البتہ عورت کیلئے چار ماہ دس دن سوگ جائز ہے۔ کسی بھی مسلمان کے انتقال کی صورت میں متعلقہ گھر میں تین دن تک کسی قسم کا کھانا پکانا جائز نہیں۔ قرض یا ادھار لیکر رسوم و رواج پورے کرنے شریعت کے خلاف ہیں۔

ہم اپنی نمود و نمائش قائم رکھنے کیلئے شدید قسم کے معاشی مسائل میں پھنسے ہیں۔ فوتگی والے گھر کھانا بنانا اور کھلانا غیر شرعی اور پسماندگان پہ بوجھ ہے۔ طاقت نہ رکھتے ہوئے قل جمعرات چالیسویں منانا کسی طرح بھی دانش مندی کا ثبوت نہیں۔آج معاشرے میں دیر سے شادیوں کا رواج بن چکا ہے، جس میں مختلف وجوہات شامل ہیں۔ اسلامی نقطہ نظر سے بالغ لڑکی لڑکے کا نکاح بغیر کسی حجت کے کیا جاسکتا ہے۔ نکاح کیلئے قبول ایجاب و قبول اور قریبی عزیزوں اقارب کو ولیمہ دینا شامل ہے تاہم آجکل دونوں اطراف سے ڈیمانڈ کی ایک لسٹ بنتی ہے

جس سبب35 سال سے تک عمر کی صرف ایک کروڑ سے زائد لڑکیاں شادی کے انتظار میں بوڑھی ہورہی ہیں۔ اس معاشرتی مسئلے کی سنگینی ہم سمجھتے ہوئے بھی ہم حقیقت تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔اس وقت مسلمان معاشرے میں جو ایک اور بڑا غلط رسم، رواج یا پابندی کہہ لیں وہ ہے دوسری شادی کا۔ اس صورتحال کو سمجھنے کیلئے اتنا اشارہ کافی ہے کہ عورتیں مَردوں کو گھر سے باہر تعلقات پہ کچھ نہیں کہتی جبکہ دوسری شادی پہ طلاق لینے اور گھر چھوڑنے کا معاملہ برق رفتاری سے سرانجا دیتی ہیں۔ شریعت نے مرد کو بیک وقت چار شادیوں کی اجازت ایک مصلحت اور معاشرتی ضرورت کو مدنظر رکھ کر دی ہے لیکن آج دوسری شادی کرنا گناہ بلکہ جرم بن چکا ہے البتہ انصاف کو قائم رکھنے پہ ایک سے زائد کی اجازت ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اسلامی احکام اور طور طریقوں پہ عمل پیرا ہوتے ہوئے اپنی زندگیوں کو آسان بنائیں لیکن شرط ہے کہ ہم دنیاوی نمود و نمائش اور لالچ سے باہر نکلیں گے تو ممکن ہے جیسا کسی دور میں اسلام کا بول بولا تھا اور غربت اور وسائل کم ہونے باوجود معاشرے میں ہر طرف سکون اور مسائل نہ ہونے کے برابر تھے

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں