پروفیسر محمد حسین /گناہ کے لغوی معنی ہیں مذہبی احکام کی خلاف ورزی‘ جرم‘خطا‘ قصور،گناہ چھوٹا ہو یا بڑا ہر حال میں اللہ کی ناراضگی کا باعث ہے اور ہر گناہ جہنم کا دہکتا ہوا انگارہ ہے انسان خطا کا پتلا ہے اس سے گناہ ہونا کوئی انوکھی بات نہیں انبیاء کے علاوہ ہر کسی سے گناہ سرزد ہو سکتا ہے جب کسی سے گناہ ہو جائے اور ندامت کے بعد توبہ کرے تو وہ بہترین گناہ گار ہے رسول پاک ؐ خاتم النبینؐ نے گناہ کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا کہ جو بات تیرے دل میں کھٹکے وہی گناہ ہے نبی اکرم ؐ نے ارشاد فرمایا کہ پانچ چیزیں ایسی ہیں جب تم ان میں مبتلا ہو جاو گے تو تمہیں بہت سے مصائب پیش آئیں گے اول جب کسی قوم میں فحاشی پھیل جاتی اور وہ اعلانیہ اس کا ارتکاب کرنے لگیں تو ان میں لازما ً طاعون اور اس قسم کی بیماریاں پھیل جاتی ہیں دوئم جب لوگ ناپ تول میں کمی کرتے ہیں تو انھیں قحط آ لیتا ہے سوئم جب لوگ اپنے مالوں کی زکوۃ نہیں دیتے تو ان سے آسمان سے آنے والی بارش کو روک لیا جاتا ہے چہارم جب لوگ اللہ اور رسول ؐ کے عہد کو توڑتے ہیں تو اللہ ان پر ایسا دشمن مسلط کر دیتا ہے جو ان میں سے نہیں ہوتا پنجم جب کسی قوم کا حاکم اللہ کے نازل کر دہ احکام کے مطابق فیصلہ نہیں کرتا تو اللہ اس قوم کے درمیان تفرقہ ڈال دیتا ہے (مشکوٰۃ)اس حدیث پر غور کیا جائے تو حرف بہ حرف یہ حدیث سچ ثابت ہورہی ہے گناہ وباء کی طرح پورے معاشرے میں پھیل چکا ہے ہم ایک ہو کر بھی سب الگ الگ ہیں اور ہمارے دلوں میں ایک دوسرے کے لیے نفرتیں اور کدورتیں ہیں ایک سچے مومن کو گناہوں سے بچ بچ کر زندگی بسر کرنی چاہیے بڑے گناہ تو ہیں ہی تباہ کن اور مہلک لیکن چھوٹے گناہ بھی کم خطرناک اور نقصان دہ نہیں اکثر ایسا ہوتا ہے کہ چھوٹے چھوٹے گناہ انسان کے لیے بڑے گناہوں کا دروازہ کھول دیتے ہیں گناہ ہماری روحانی زندگی کے قاتل اور دشمن ہیں اس لیے ان سے گھن کھانی چاہیے اور پھونک پھونک کر قدم اٹھانا چاہیے گناہوں سے دنیا بھی خراب رہتی ہے اور آخرت بھی اور ہمیں دونوں کو بچانا اور سنوارنا چاہیے‘ حضرت انس ؓ نے لوگوں کو مخاطب کر کے فرمایا کہ تم لوگ ایسے کام کرتے ہو جو تمہاری نگاہوں میں بال سے بھی زیادہ باریک یعنی معمولی درجے کے گناہ ہیں لیکن ہم نبی پاک ؐ کے عہد مبارک میں انھیں ہلاک کر دینے والی چیزوں میں شمار کیا کرتے تھے یعنی بہت بڑا گناہ سمجھتے تھے ایک بار حضور اکرم ؐ نے صحابہ کرام ؓ کو مخاطب کر کے فرمایا کہ میں جانتا ہوں اپنی امت کے ان لوگوں کو جو قیامت کے دن ایسی نیکیاں لے کر آئیں گے جو تہامہ پہاڑوں کی طرح واضح اور نمایاں ہو ں گی لیکن اللہ انھیں ان غباروں کی طرح کر دے گا جو اڑجاتا ہے یہ وہ لوگ ہوں گے جو راتوں کو ایسے ہی عبادت کریں گے جیسے تم کرتے ہو لیکن یہ ایسے لوگ ہوں گے کہ جب تنہا ہوں گے اور اللہ کے حرام کیے ہوئے کاموں کا موقع حاصل ہو گا تو ان کا ارتکاب کرلیں گے (ابن ماجہ)یہ حدیث ایسے لوگوں کے بارے میں ہے کہ جب تنہائی میں گناہ کرنے کا موقع ملتا ہے تو وہ اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں کہ کسی کو پتہ نہیں چلے گا اس میں یہ تلقین کی گئی ہے کہ گناہوں سے بچنا اور نیکیاں اختیار کرنا تب ہی وزن رکھتا ہے جب وہ صرف اللہ کے لیے ہوں لوگوں کے سامنے نیک بننا اور تنہائی میں اللہ کو بھول جانا صرف دکھاوا ہے اور ایسی نیکی کا کوئی وزن نہیں جو اللہ کے لیے نہ کی جائے گناہ کے بارے میں کہا گیا ہے کہ کسی سے مت ڈرو مگر اپنے گناہوں سے ڈر بے شک وہ پوشیدہ یا اعلانیہ انسان کا اعلان گناہ کرنا اس کی بے باکی اور اللہ کے مقابلے میں جرات اور شرم و حیاکے فقدان کی دلیل ہے اس لیے نبی پاک ؐ نے اسے ناقابل معافی جرم قرار دیا ہے اور آپ ؐ نے ارشاد فرمایا کہ میری امت کے ہر فرد کو معاف کر دیا جائے گا سوائے اعلانیہ گناہ کرنے والوں کے‘ ڈٹ کر سود لینا‘ مردوں کا عورتوں کی طرح حلیہ بنانا‘ سب کے سامنے رشوت لینا اور دینا‘ جھوٹ بولنااور جھوٹی گواہی دینا‘ کھلا عام شراب پینا وغیرہ یہ سب اعلانیہ گناہ ہے شریعت نے اپنی زندگی کے گناہوں کے تذکرے سے بھی روک دیا ہے اس ضمن میں اللہ فرماتا ہے کہ گناہوں کو فخریہ طور پر بیان کرنے والا اپنے آپ کو عریاں کرنے میں فخر محسوس کرتا ہے تو قیامت کے دن سب کے سامنے عریاں کیا جائے گا اللہ کی سب سے بڑی عبادت یہ ہے کہ گناہوں کو ترک کیا جائے جو لوگ نماز تسبیح کے ساتھ گناہوں کو نہیں چھوڑتے ان کی عبادت قبول نہیں ہوتی فرمایا گیا کہ تم جس قدر کسی گناہ کو ہلکا سمجھو گے وہ اتنا ہی اللہ کے نزدیک جرم بن جائے گا گناہوں سے بے پرواہی انسان کے لیے دائمی تباہی کا سبب ہے انسان گناہوں سے جتنا دور ہوتا ہے رب تعالیٰ کی رضا حاصل کرتا چلا جاتا ہے ہماری یہ تکالیف پریشانیاں یہ مہنگائی اور ظلم و بربریت اورنئی نئی بیماریاں جیسے کرونا وغیرہ ہمارے گناہوں ہی کا کفارہ ہے اسلام ہمیں تعلیم دیتا ہے کہ اپنے گناہوں کو اپنی نیکیوں سے مٹاؤ۔ اخلاص سے کثرت کے ساتھ توبہ و استغفار کرو کیونکہ گناہ سے توبہ کرنے والا بے گناہ کی مانند ہے جو لوگ گناہوں پر دلیر ہو جاتے ہیں تو بہ نہیں کرتے ان پرشیاطین مسلط ہو جاتے ہیں گناہوں کی وجہ سے رزق میں برکت ختم ہو جاتی ہے امن و سکون رخصت ہو جاتا ہے اور صحت و عافیت سے محرومی ہو جاتی ہے زندگی کی مہلت سے فائدہ اٹھائیں اور جان لیں کہ ہر گناہ جہنم کا دہکتا ہو انگارہ ہے اور کوئی عقل مند انگارے جمع نہیں کرتا آئیے ہم سب مل کر اللہ سے دعا کریں کہ اللہ تبارک و تعالیٰ ہر مسلمان ہر مسلمان کو ذہنی قلبی جسمانی اور روحانی گناہوں سے محفوظ رکھے۔(آمین ثم آمین)
267