ضیاء الرحمن ضیاء /حکومت نے موسم سرما میں گھریلو صارفین اور صنعتوں کے لیے گیس کی لوڈ شیدنگ نہ کرنے کا اعلان کیا ہے اور اس پر عملدرآمد کے لیے پیٹرولیم ڈویژن کو ہدایت جاری کی ہے کہ گیس کی بلا تعطل فراہمی کو ممکن بنایا جائے۔ وفاقی وزیر منصوبہ بندی اسد عمر کی صدارت میں کابینہ کمیٹی برائے توانائی کا اجلاس ہوا جس کا اعلامیہ جاری کر دیا گیا ہے۔ جس میں کہا گیا ہے کہ موسم سرما میں گھریلو صارفین اور صنعتوں کے لیے گیس کی لوڈ شیڈنگ نہیں کی ہو گی۔موسم سرما کی آمد کے ساتھ ہی گیس کی لوڈ شیڈنگ بھی شروع ہو جاتی ہے، ہر سال سردیوں میں گیس کی جب زیادہ ضرورت ہوتی ہے گیس نہیں ملتی۔ گیس کے ہیٹر وغیرہ جلانا تو درکنار کھانا پکانے کے لیے بھی گیس دستیاب نہیں ہوتی۔ ویسے تو ہر سال زیادہ سردی میں گیس کی لوڈ شیڈنگ ہوتی ہے مگر اس مرتبہ تو موسم گرما کے جاتے ہیں گیس غائب ہو گئی تھی۔جس کی وجہ سے عوام کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ کھانا پکانا محال ہو چکا ہے، بچے بھوکے ہی سکول جانے پر مجبور ہیں۔ خواتین کو گھروں میں شدید کوفت کا سامنا ہے، چوبیس گھنٹوں میں بمشکل دو، تین گھنٹے ہی اتنی گیس میسر آتی ہے کہ جیسے تیسے اس پر کھانا پکایا جا سکے، اب یہ گھنٹے بھی مقرر نہیں ہیں یہ خوش قسمت گھنٹے کوئی بھی ہو سکتے ہیں لہٰذا سارا دن دیگر گھریلو کاموں کے ساتھ ان کی ایک یہ ذمہ داری بھی ہے کہ بار بار کچن میں جا کر چولہا دیکھیں کہ گیس آئی ہے یا نہیں، اگر آ گئی ہے تو باقی تمام کاموں کو چھوڑ کر سب سے پہلے کھانے کا انتظا م کریں۔ ہر شخص کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ کسی بھی طرح گھر میں ہی روٹیاں پک جائیں بصورت دیگر ہوٹلوں سے روٹیاں لانی پڑتی ہیں اور وہاں ریٹ اتنے زیادہ ہیں کہ عوام تین وقت وہاں سے روٹیاں لانے کی گنجائش نہیں رکھتے۔ بجلی، پانی اور گیس یہ تینوں عناصر زندگی کے لیے نہایت بنیادی ضروریات کی حیثیت اختیار کر چکے ہیں۔ بجلی اور پانی کے بغیر تو کسی بھی جگہ رہنا ممکن نہیں ہے لیکن گیس کے بغیر دیہاتوں میں لوگ گزارا کر رہے ہیں اور گیس کے متبادل کے طور پر لکڑیاں جلا کر نظام زندگی چلا رہے ہیں۔ لیکن اس کی وجہ سے درختوں میں تیزی سے کمی واقع ہو رہی ہے اور جنگلات کو شدید نقصان پہنچ رہا ہے، جس کی وجہ سے ماحول پر برا اثر پڑ رہا ہے اور طرح طرح کی بیماریاں جنم لے رہی ہیں۔ مگر کیا کیا جائے؟ ماحول کی حفاظت کی خاطر دیہاتیوں کو بھوکا رہنے یا کچا کھانا کھانے پر تو مجبور نہیں کیاجا سکتا۔ لہٰذا لامحالہ وہ درخت کاٹیں گے اور اپنا کام چلائیں گے۔ انہیں گیس کی فراہمی کی بات کی جائے تو مسئلہ یہ ہے کہ جہاں گیس فراہم کی جاچکی ہے وہاں پوری طرح دستیاب نہیں ہے تو اتنی بڑی تعداد میں نئے کنکشز دینا اور ان کے لیے گیس کی فراہمی کو یقینی بنانا موجودہ حالات میں تو ناممکن ہے۔ جبکہ شہری علاقوں میں تو لکڑیوں کا انتظام کرنا بہت مشکل ہے اس لیے وہاں گیس کے بغیر زندگی بہت مشکل ہو جاتی ہے اگر صنعتی شعبے کے لیے گیس کی فراہمی کی بات کی جائے تو وہاں حالات اس سے بھی زیادہ خراب ہیں۔ بہت سی صنعتیں جن کا دارومدار گیس پر ہے وہ کئی کئی ماہ بند رہتی ہیں جس سے کئی طرح کے نقصانات ہوتے ہیں سب سے پہلے تو ان لوگوں کو نقصان ہوتاہے جو ان صنعتوں کو چلا رہے ہوتے ہیں یا ان کا گزر اوقات ہی ان صنعتوں سے ہوتا ہے۔ ان میں ان کارخانوں کے مالکان ہوتے ہیں جنہیں کارخانے کی بندش کی وجہ سے بہت زیادہ نقصان اٹھانا پڑتا ہے، پھر اس صنعت سے جڑے دیگر بہت سے افراد جن میں مزدور اور ٹرانسپورٹرز وغیرہ جو اس صنعت سے وابستہ ہوتے ہیں اور سامان کی نقل و حمل کے لیے اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ یہ سب افراد بے روزگار ہو جاتے ہیں جبکہ بے روزگاری کو قابو کرنا پہلے ہی حکومت کے بس میں نہیں ہے تو گیس کی بندش کی وجہ سے بے روزگار افراد کی تعداد میں بہت زیادہ اضافہ ہو جاتا ہے۔ اس کے علاوہ صنعتوں کی بندش کی وجہ سے ملکی معیشت پر نہایت منفی اثر پڑتا ہے، ملکی خزانے میں ان صنعتوں کے ذریعے سے آنے والے محصولات بند ہو جاتے ہیں اور خزانے پر بوجھ بڑھ جاتا ہے، اسی طرح برآمدات میں کمی واقع ہوتی ہے اور درآمدات بڑھ جاتی ہیں جس کی وجہ سے معیشت کمزور ہو جاتی ہے۔ ملک میں توانائی کی قلت کے خوف سے بیرونی سرمایہ کار بھی سرمایہ کاری نہیں کرتے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ ایسے ملک میں جہاں اشیاء ضروریہ کی قلت ہے وہاں سرمایہ کاری کرنا اپنے سرمائے کو خطرے میں ڈالنے کے مترادف ہے۔ ان حالات میں کمزور معیشت والے ملک کے لیے تو سراسر نقصان ہی نقصان ہے۔ لہٰذا حکومت کو چاہیے کہ فقط اعلانات و ہدایات پر اکتفا کرنے کی بجائے اس اہم ترین مسئلے پر سنجیدگی سے غور کرے اور اس کے حل کے لیے ماہرین سے رائے لے۔ اس کے لیے ماہرین کی ایک کمیٹی تشکیل دی جائے جو تمام حالات پر غور کرنے کے بعد حکومت کے سامنے سفارشات پیش کرے جن میں اس مسئلے کی وجوہات اور ان کا حل شامل ہو۔ پھر حکومت ان سفارشات پر فوراً عمل کرتے ہوئے بحران پر قابو پانے کی کوشش کرے، ہر سال کی طرح اس بار بھی صرف نوٹس لینے اور اعلان کرنے تک ہی محدود نہ رہا جائے بلکہ عملی اقدامات کیے جائیں تاکہ ملکی حالات بہتر ہوں، معیشت مضبوط ہو اور عوام کی زندگیوں میں بھی سکون آئے۔
223