197

کلرسیداں کالج کے طلباء کھلے آسمان تلے

گزشتہ ہفتے کو سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو دیکھنے کو ملی ہے جس میں گوورنمنٹ بوائے کالج کلرسیداں میں فرسٹ ائیر کے طلبہ جن کی تعداد 280بتائی گئی ہے وہ تمام زمین پر بیٹھ کر تعلیم حاصل کرتے دکھائے گئے ہیں اس دور جدید میں پرائمری سکولوں میں بھی بچے بینچوں پر بیٹھ کر کلاس لے رہے ہیں لیکن کلرسیداں کے اس واحد بوائز کالج میں بچے زمین پر بیٹھ کر تعلیم حاصل کرنے پر مجبور ہیں سب سے پہلا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا کالج انتظامیہ نے کالج میں پائے جانے والے اس طرح کے مسائل سے اپنے ہائیر آفیسرز کو آگاہ کیاتھا کیا انہوں نے اپنے کلرسیداں کی سیاسی قیادت کے نوٹس میں یہ بات لائی تھی کہ ہمارے کالج میں طلبہ کے بیٹھمے کیلیئے کرسیاں یا اس طرح کا دیگر سامان ضروریات موجود نہیں ہے اگر کالج انتظامیہ نے اس حوالے سے اپنی زمہ اریاں پوری کر رکھی ہیں تو یہ محکمہ تعلیم اور ڈائریکٹر کالجزکی زمہ داری بنتی تھی کہ وہ مذکورہ کالج میں وہ تمام سامان فراہم کریں جو اس دور میں تعلیم ادارے کیلیئے ضروری ہے ان کے ساتھ ساتھ کلرسیداں کی سیاسی قیادت کا بھی فرض بنتا تھا کہ وہ کالج میں وہ تمام سہولیات باہم پہنچائیں جو ان کا حق بنتا ہے لیکن اگر ایسا نہیں کیا گیا تو اس تما م تر معاملے میں کوتاہی کی زمہ دار کالج انتظامیہ ہے جس نے اتنے بڑے معاملے سے چشم پوشی اختیار کیئے رکھی ہیکالج انتظامیہ نے اگر افسران بالا کو آگاہ کیا بھی تھا اس کے باوجود بار بار ان کو ریمائنڈر دینا بھی بہت ضروری تھا بہرحال کالج کے ایک پروفیسر نے دل پر پتھر باندھ کر اگر اس راز پر سے پردہ اٹھا ہی دیا ہے تو اس کو ان کا جرم نہ سمجھا جائے بلکہ انہوں نے کلرسیداں کے لوگوں مقامی وی مرکزی سیاسی قیادت اور محکمہ تعلیم کے افسران کے نوٹس میں دے کر ان پر احسان کیا ہے جس پر ہمیں ان کا مشکور ہونا چاہیئے جو کام انہوں نے کیا ہے وہ کلرسیداں کی مقامی سیاسی قیادت اور بلخصوص ایسے والدین جن کے بچے اس کالج میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں یہ نشاندہی ان کی زمہ داری بنتی ت تھی عام لوگوں کو اس بات کا علم نہیں ہوتا ہے تعلیم جو کسی بھی معاشرے کا ایک بنیادی حق بنتا ہے حیرانی کی بات ہے کہ کلرسیداں تحصیل کے واحد بوائے کالج میں اس بنیادی حق کی نفی ہو رہی ہے یہ بات سوچ سے بھی باہر ہے کہ پرائمری سکولوں میں کرسیاں اور بینچ موجود ہیں لیکن جو ایک کالج جس میں پڑھنے والے بچے ویسے بھی تھوڑے نوجوان عمر کے ہوتے ہیں وہ زمین پر بیٹھ کر تعلیم لے رہے ہیں اب تو یہ مسائل زبان زد و عام ہو چکے ہیں محکمہ تعلیم کے افسران اور سیاسی قیادت بھی ان مسائل سے با خبر ہو چکی ہے اب بھی وقت ہے کہ سیاسی قیادت اپنا کردار ادا کرتے ہوئے فوری طور پر کالج میں فرنیچر فراہم کرنے کا اعلان کرکے عوام علاقہ کے دلوں میں اپنے لیئے جہگہ بنائیں جبکہ محکمہ تعلیم کے اعلی حکام کو بھی اس بات کا سختی سے نوٹس لینا ہو گا کہ اس کالج میں اتنے عرصے سے فرنیچر فراہم اور دیگر مسائل کیوں حل نہیں کیئے گئے ہیں مسئلہ صرف فرنیچر کی فراہمی تک محدود نہیں ہے بلکہ دیگر بھی مسائل موجود ہیں جن میں سر فہرست کالج میں پروفیسرز اور دیگر سٹاف کی تمام خالی آسامیاں فوری طور پر فل کی جائیں 287طلبہ کی کلاس کو پڑھانے کیلیئے انگلش کا صرف ایک پروفیسر اور وہ بھی صرف ایک سیکشن میں پڑھا رہے ہیں اتنے بڑے مجمعے میں پڑھانے والے پروفیسرز کو کلاس کا دوسرا سرا نظر آنا ہی مشکل ہوتا ہے جو طلبہ آخر میں بیٹھے ہوتے ہیں ان تک تو اپنے اساتذہ کی آواز بھی نہیں پہنچ پاتی ہو گی پروفیسرز کی تعداد بڑھانا بھی وقت کی بڑی ضرورت ہے ان کی تعداد طلبہ کی تعداد کے مطابق ہونی ضروری ہے اس کے علاوہ کم از کم دو ایسے بڑے حالز کی تعمیر اشد ضروری ہے جہاں پر نظم و ضبط کے ساتھ تعلیم دی جا سکے اس طرح بھیڑ بکریوں کی طرح بٹھا کر کیسے اچھی تعلیم ممکن ہو سکتی ہے اس طرح کے ماحول میں تعلیم دینا اور لینا کالج کے پروفیسرز اور طلبہ کی توہین ہے طلبہ کے الگ الگ سیکشن بنائے جائیں تعداد جتنی تھوڑی ہو گی طلبہ اتنا ہی اپنے اساتذہ کی بات آسانی سے سمجھ سکیں گئے یہ بات علم میں آئی ہے کہ ایم این اے سداقت علی عباسی نے معاون خصوصی قدیر عباسی کو کالج کا دورہ کرنے کی ہدایت کی تھی اور انہوں نے دورہ کر بھی لیا ہے اور کالج میں موجود تمام مسائل کے حل کی یقین دہانی کروائی ہے ڈائریکٹر کالج نے بھی دورہ کیا ہے انہوں نے بھی مسائل کے حل کا عندیہ دیا ہے جو کہ خوش آئند ہے اگر کالج میں موجود تمام مسائل حل ہو جاتے ہیں تو اس کا تمام تر سہرا کالج کے پروفیسر ناصر محمود جنہوں نے ہمت و دلیری کا کام کیا ہے ان کے سر جائے گا انہوں نے کالج میں پائے جانے والے مسائل کی نشاندہی کر کے ہم پر احسان عظیم کیا ہے جس پر وہ مبارک باد کے مستحق ہیں
ہمیں ان کی آواز میں اضافہ کرنا ہو گاپنڈی پوسٹ اور پریس کلب کلرسیداں کی پوری ٹیم پروفیسر ناصر محمود کی کاوشوں کو سراہتی ہے اور ہر فورم پر ان کے ساتھ کھڑا ہونے اور ان کے دست و بازو بننے کی یقین دہانی بھی کرواتے ہیں

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں