30 اپریل کو ہونے والے صوبائی انتخابات کے سلسلے میں گوجرخان کے حلقوں پی پی 8 کے لئے 27 جبکہ پی پی 9 کے لیے 23 امیدواروں نے اپنے کاغذات نامزدگی گوجر خان اور کلرسیداں میں ریٹرننگ آفیسرز کے پاس جمع کرا دئیے،حلقہ پی پی 9 گوجرخان کے تمام امیدواروں کو کلرسیداں کاغذات نامزدگی جمع کرانے کے لئے جانا پڑا،گوجرخان میں سیاسی ہلچل عروج پر ہے امیدوار اپنے اپنے حامیوں کی بڑی تعداد کے ہمراہ کاغذات نامزدگی جمع کرانے کے لئے آئے حلقہ پی پی 8 کے لئے جن نمایاں امیدواروں نے کاغذات جمع کرائے ان میں چوہدری جاوید کوثر ایڈووکیٹ، چوہدری افتخار وارثی، چوہدری محمد ریاض،خرم پرویز راجہ، سہیل کیانی ایڈووکیٹ، شاہ رخ پرویز راجہ،محسن صغیر بھٹی ایڈووکیٹ، فرخ محمود سیال،چوہدری اعظم پرویز،خالد مبین،چوہدری خرم زمان، طارق کیانی،راجہ عثمان ضمیر،راشد منہاس،چوہدری کاشف گجر،اجمل قریشی اور تنویر شیرازی جبکہ پی پی 9 کے لیے سابق ایم این اے راجہ جاوید اخلاص، سابق ایم پی اے چوہدری ساجد محمود،راجہ حمید ایڈووکیٹ،راجہ خرم پرویز، چوہدری ضیافت گجر، راجہ بابر کرامت، قاضی وقار کاظمی،احمد عزیز بھٹی، شاہ رخ پرویز راجہ،چوہدری سرفراز خان،سید شبر عباس، جہانزیب اکرام منہاس، سید قلب عباس عبدالوحید اعوان،منیراحمد اور طارق عزیز بھٹی نے اپنے اپنے کاغذات نامزدگی جمع کروائے، سیاسی جماعتوں کی طرف سے ٹکٹوں کا ابھی تک حتمی فیصلہ نہیں ہوا،محسن صغیر بھٹی،سہیل کیانی،شبر عباس ماسٹر محمد اعظم جہانزیب منہاس اور راشد منہاس پہلی مرتبہ میدان میں اترنے کی تیاری کر رہے ہیں۔
حلقہ پی پی 8 سے پیپلزپارٹی کے راجہ خرم پرویز،محسن صغیر بھٹی ماسٹر چوہدری محمد اعظم،سید شبر عباس اور شاہ رخ پرویز نمایاں امیدوار ہیں، راجہ خرم پرویز نے گزشتہ عام انتخابات میں اس حلقے سے الیکشن لڑا تھا او چوہدری جاوید کوثر کے مقابلے میں معمولی فرق سے ہارے تھے،پیپلزپارٹی کے باقی تینوں امیدوار یوں تو صوبائی اسمبلی کے لیے نئے ہیں،لیکن سیاست کے پیچ و تاب سے بخوبی آگاہ ہیں ماسٹر اعظم پرویز، اسپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف کے بہت قریب ہیں اور سمجھا جا رہا ہے کہ پیپلزپارٹی شاید ان کو میدان میں اتارے،کیونکہ خرم پرویز نے گزشتہ انتخابات میں جن یونین کونسلز سے بہت زیادہ لیڈ حاصل کی تھی وہ اب حلقہ پی پی 9 میں شامل کر دی گئی ہیں اور خرم پرویز اس علاقے سے الیکشن لڑنے کے خواہاں ہیں،قبل ازیں راجہ جاوید اشرف حلقہ پی پی 9 سے فیورٹ سمجھے جا رہے تھے،ماسٹر اعظم پرویز کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ حلقہ پی پی 9 میں پیپلزپارٹی اور راجہ پرویز اشرف کی بہت مدد گار ثابت ہو سکتے ہیں،محسن صغیر بھٹی پیپلزپارٹی کے دیرینہ اور نظریاتی کارکن ہیں اور اگر میرٹ کی بات کی جائے تو ان کے حق کو چیلنج نہیں کیا جاسکتا‘ اب دیکھیے پارٹی قیادت کیا فیصلہ کرتی ہے،دوسری جانب ن لیگ میں چوہدری محمد ریاض اور افتخار وارثی میں ٹکٹ کے حصول کی جنگ زوروں پر ہے، نہیں کہا جا سکتا کہ کون ٹکٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوگا،چوہدری محمد ریاض اپنے صاحبزادے خرم زمان کو میدان میں اتارنا چاہتے ہیں،افتخار وارثی کی کوشش اور خواہشیں یہ تھی کہ راجہ جاوید اخلاص دونوں حلقوں سے الیکشن لڑیں یا کم از کم حلقہ پی پی 8 سے کاغذات ضرور جمع کرایں تاہم جاوید اخلاص نے اس سے اتفاق نہیں کیا،پی ٹی آئی میں بھی ٹکٹ کے حصول کے لیے جنگ زوروں پر ہے صورتحال انتہائی دلچسپ ہے،اس میں تو کوئی شک نہیں کہ چوہدری جاوید کوثر فیورٹ امیدوار ہیں تاہم سہیل کیانی اور فرخ سیال میں وہ تمام خصوصیات موجود ہیں جو ممبر صوبائی اسمبلی کا الیکشن لڑنے کے لیے ضروری ہیں،اس بار محسوس ہو رہا تھا کہ شاید جاوید کوثر الیکشن نہ لڑیں اور الیکشن لڑنے کا اعلان کرنے کے بعد میں پارٹی میں مزاحمت کا بھی سامنا کرنا پڑا،ماضی میں دو بار ممبر صوبائی اسمبلی منتخب ہونے والے طارق کیانی نیاگرچہ پارٹی قیادت کے اصرار پر کاغذات جمع کرائے ہیں تو وہ الیکشن لڑنے کا ارادہ نہیں رکھتے اگر وہ الیکشن لڑنے میں سنجیدہ ہوتے تو شاید وہ سب سے زیادہ فیورٹ قرار پاتے،فرخ سیال کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ پارٹی کی قیادت میں ان کے ایسے حامی موجود ہیں جو انہیں ٹکٹ دلوانے کی صلاحیت رکھتے ہیں،اور خود فرخ سیال کئی ماہ سے بڑی سنجیدگی کے ساتھ ٹکٹ کے حصول کے لیے کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں اور انہیں پارٹی کے اندر چوہدری جاوید کوثر کا ایک خطرناک حریف قرار دیا جا رہا ہے، راجہ سہیل کیانی ایک پڑھے لکھے،باصلاحیت، شعلہ بیان مقرر،پارٹی کے برحد وفادار اور عمران خان کے دیوانے ہیں، انہوں نے بھی کسی کے اشارے پر ہی کاغذات جمع کرائے ہیں اور نہیں کہا جا سکتا کہ ٹکٹ کا قرعہ کس کے نام نکلے گا،پی ٹی آئی کے ایک اور نظریاتی کارکن راشد منہاس نے بھی کاغذات جمع کرائے ہیں جو عمر اسد کے قریب ہیں،اور اگر پارٹی آن کو الیکشن لڑانے کا فیصلہ کرتی ہے تو وہ الیکشن لڑنے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں،
اس کے علاوہ جواں جذبوں کے ساتھ کچھ نوجوان بھی میدان میں اترے ہیں جن میں جمعیت علمائے اسلام کے خالد مبین، پاکستان نظریاتی پارٹی کے امیدوار کاشف گجر اور سیاسی میدان میں بے حد شہرت رکھنے والے راجہ محمد ضمیر مرحوم کے فرزند عثمان ضمیر شامل ہیں،سیاسی میدان میں تو وہ نو وارد ہیں تا ہم اپنے والد کی نیک نامی اور سیاسی ساکھ انہیں نمایاں کرتی ہے۔اجمل قریشی بھی کافی زیادہ ووٹ لینے کے لیے پر امید ہیں،سابق چئیرمین چوہدری اسماعیل شیلا بھی پہلی بار میدان میں آتے ہیں جو خود جیت تو نہیں سکتے مگر کسی کو جیتنے اور ہرانے میں نمایاں کردار ضرور ادا کر سکتے ہیں،جیتنے والے امیدواروں کو انہیں نظر انداز کرنا مہنگا پڑ سکتا ہے،اور جہاں تک حلقہ پی پی 9 کا تعلق ہے تو اس حلقہ میں مطلع کافی حد تک صاف ہے،یہاں ن لیگ کافی زیادہ مسائل کا شکار تھی تاہم راجہ جاوید اخلاص نے خود کو امیدوار بنا کر ان مسائل پر قابو تو پالیا ہے مگر خطرہ ابھی باقی ہے،راجہ حمید ایڈوکیٹ، چوہدری محمد ضیافت،سید قلب عباس اور قاضی وقار انکے ساتھ چلیں گے مگر شوکت بھٹی کی خاموشی کسی بڑے طوفان کا پیش خیمہ ہوسکتی ہے،کوئی شک نہیں کہ انہوں نے گزشتہ انتخابات میں ن لیگ کو شکست سے دوچار کرنے میں بڑا نمایاں کردار ادا کیا،اب وہ کیا کریں گے،اس کا اندازہ جلد ہی ہو جائے گا،کیونکہ ان کے بھائی احمد عزیز بھٹی نے اس بار پھر کاغذات داخل کرائے ہیں جبکہ دوسری طرف پیپلز پارٹی خرم پرویز کو اس حلقے میں لے آئی ہے جو ظاہر ہے پی ٹی آئی اور ن لیگ کے لیے بڑا خطرہ ہیں، گزشتہ انتخابات میں پی پی پی کے ٹکٹ پر لڑنے والے چوہدری سرفراز بھی ان کے ساتھ ہیں،پی ٹی آئی اس حلقے میں چوہدری ساجد محمود کے ساتھ بڑی یکسو ہے،اور ان کے ساتھ کسی کو اختلاف نہیں،گزشتہ انتخابات میں ایم پی اے کا الیکشن جیتنے کے بعد وہ خاصے متحرک رہے ہیں اور انکو شکست دینا کوئی آسان کام نہیں ہو گا۔ بابر کرامت کو تو الیکشن آئے ہوئے تھے انہوں نے ہر حال میں الیکشن لڑنا تھا جسکے لیے انہوں نے مذہبی جماعت کا آسرا لیا، اب دیکھنا یہ ہے کہ ان کی موجودگی میں مذہبی جماعت پچھلے انتخابات سے زیادہ ووٹ لیتی ہے یا کم،یہ وقت آنے پر معلوم ہو گا جماعت اسلامی نے مرزا منیر احمد کو میدان میں اتارا ہے جو عوامی آدمی ہیں کامیاب بلدیاتی دور گذار چکے ہیں پی ٹی آئی کے نظریاتی کارکن جہانزیب منہاس نے بھی کاغذات نامزدگی داخل کرائے ہیں،جنہوں نے عمران خان کی خاطر اپنا سب کچھ قربان کردیا اور سعودیہ میں بہترین جاب چھوڑ کر پاکستان آگیے،اگر چوہدری ساجد جیسا فیورٹ امیدوار میدان میں نہ ہوتا جہانزیب منہاس کو نمبر دیے جاسکتے تھے۔