گوجرخان کے رہائشی سندھ سے اغواء 215

گوجرخان کے رہائشی سندھ سے اغواء

ہمیشہ سے سفلی خواہشوں اور جذبات نے انسان کو وحشی کی صف میں لا کھڑا کیا وحشت اور ہوس نے انسان کو ہمیشہ بلندی سے پستی کی طرف دھکیلتا ہے اس بات کو جانتے سب ہیں لیکن مانتا کوئی نہیں زندگی ہمواریوں اور نا ہمواریوں سے وابسطہ ہے نشیب و فراز اس جیتی جاگتی زندگی کا حسن جاوداں ہے ہر شخص کو اپنی زندگی میں مختلف حالات و واقعات سے مسلسل گزرتا ہے کوئی بھی شخص ایسا نہیں جس کی زندگی ایک ہی سمت میں گزر رہی ہو زندگی سچ اور جھوٹ اچھائی برائی اور اونچ نیچ سے بندھی ہے دوڑتی بھاگتی زندگی میں ہر روز واقعات ظہور پذیر ہوتے ہیں مگر کوئی ایک حادثہ بری طرح مجروح کر دیتا ہے ہر قدم سوچ سمجھ کر اٹھانے میں ہی عافیت وآتشی چپھی ہوتی ہے لیکن عجلت پسند اور سہل پرست اکثر اس عافیت کو درخود اعتنا سمجھتے اور بنا سوچے سمجھے وہ کر بیٹھتے ہیں جس کا انجام بھیانک ہی نکلتا ہے کسی بھی سازش کے جوڑ توڑ کو بھاپنا کسی واقعہ کی وجوہ دریافت کرنا یا باریک بین کارگزاری و کارکردگی پر مشتمل ہوتا ہے کبھی قاتل تمام تر ثبوت اور شواہد کے ساتھ سامنے ہوتا ہے لیکن عجلت پسندی اسے قاتل تسلیم نہیں کرتی کچھ ایسا ہی خطہ پوٹھوار کے تین افراد کے ساتھ ہوا جو سوشل میڈیا پر آنے والے ایک اشتہار کو لیکر مارکیٹ میں اٹھارہ لاکھ پچیس ہزار میں فروخت ہونے والا ٹریکٹر سات لاکھ میں خریدنے کے لالچ میں سندھ جا پہنچے یہ سوچے بغیر کہ اٹھارہ لاکھ کا ٹریکٹر سات لاکھ میں فروخت کرنے کے لیے کسی اشتہار کی ضرورت نہیں ہوتی۔جگہ جگہ ٹریکٹرز کے لین دین کے شوروم موجود ہیں اٹھارہ لاکھ مالیت کا ٹریکٹر جو اشتہار کے مطابق بلکل نیو حالت میں تھا کسی بھی شوروم پرباآسانی فروخت کیا جاسکتا تھا۔لیکن کہتے ہیں جب دل میں لالچ آتا ہے تو عقل چلی جاتی ہے۔واقعہ کے مطابق اس قدر کم قیمت ٹریکٹر کا اشتہار دیکھ کر ان اصحاب نے اشتہار میں دئیے فون نمبر پر رابطہ کیاتفصیلات لیں اور تین افراد‘ زاہد محمود(ساکن یوسی تھاتھی تحصیل گوجرخان) محمد شیرازاور بنیامین (ساکن ہرنواہ تحصیل کلر سیداں) دس لاکھ کی رقم کے ساتھ سندھ کے لیے نکلے۔اس دوران وہ پیچھے اپنے عزیزواقارب سے رابطے میں رہے۔اشتہار دینے والے پارٹی نے انہیں صادق آباد سے ریسیو کیا اور گاڑی میں انہیں سندھ کی جانب لے جایا گیا۔سندھ میں پہنچے تک تینوں افراد کا اپنے گھر والوں سے رابطہ رہا پھر ان کے فون بند ہوگئے۔جس کے بعد ایک فون کال پر بتایا گیا کہ آپکے تینوں افراد اغواء کر لیے گئے ہیں اور وہ اس وقت کچے کے علاقے میں ہیں اغواء کاروں نے تینوں کی رہائی کے لیے دو کروڑ کی ڈیمانڈ کی ہے۔۔اغواء کار مختلف موبائل نمبروں سے رابطہ کرکے رقم کی ڈیمانڈ کررہے ہیں جبکہ دوکروڑ کی بھاری رقم ان گھرانوں کے لیے اکٹھا کرنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔مغوی افراد کے کچھ لوگ صادق آباد پہنچ کر پولیس سے تعاون مانگ رہے ہیں لیکن پولیس اپنی روایتی بے حسی کے باعث ان کی بات تک سننے پر آمادہ نہیں۔جبکہ ان افراد کے خاندان گذشتہ پانچ چھ روز سے قیامت کے لمحے گذار رہے ہیں بے بسی اور لاچارگی ان کے روگ میں اضافہ کررہی ہے جس کا احساس صرف انہیں خاندانوں کو ہے جو اس کرب سے گذر، رہے ہیں۔ اغواء کار سندھ سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کے پشت پناہی بھی وہیں کے بااثر افراد ہوں گے کیونکہ کرائمنلز کہیں سے ہوں ان کی پشت پناہی وہاں کے مقامی وڈیرے‘چوہدری‘خان اور سردار ہی کرتے ہیں۔چونکہ سندھ مین پیپلزپارٹی برسراقتدار ہے اور یہاں سابق وزیراعظم راجہ پرویز اشرف اسی جماعت سے منسلک ہیں تو متاثرہ خاندانوں کو ان سے فوری رابطہ کرنا چاہیے ان کے علاوہ کوئی اور سندھ میں ان کی حکومتی لیول پر مدد نہیں کرسکتا۔اس لیے جتنی جلدی ہوسکے ان سے رابطہ کر کے ان کی مدد حاصل کی جائے۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں