107

گوجرخان پولیس عوام کے تحفظ میں ناکام

مہنگائی کے ہاتھوں مجبور ہمارا معاشرہ مسلسل تنزلی کی جانب گامزن ہے جہاں بھوک بے روزگاری اور فاقوں سے خود کشیاں کرنے پر مجبور ہوں وہاں مسلسل پرواز کرتی گیس وبجلی کی قیمتوں میں اضافے کو برداشت کرنے کا حوصلہ کہاں سے لائیں حکمرانوں میں خلوص کیا تلاش کریں کہ ہر آنے والا مہنگائی کا ذمہ دار جانے والوں کو قرار دے پر خود اس کی ذمہ داری سے بری الذمہ ہوکر اپنی مدت پوری کر لیتا ہے اور پھر عوام نئے آنے والوں کے کیے وعدوں کے ایفاء ہونے اور دیکھائے جانے والے خوابوں کی تعبیر کی آس لگا کر نئے سرے سے کھال اتارے جانے کا کرب سہتے ہیں ہماری زندگی اندھیروں کے قریب اور روشنیوں سے دور ہے حالات رفتہ رفتہ ایک طوفان کا روپ دھار رہے ہیں جو اُٹھ گیا تو سب قیصروقصرا زمین بوس ہوجائیں گے موجودہ حکومت نے ساڑھے تین سالہ دور میں مہنگائی‘بے روزگاری اور جھوٹ وفریب کے عوام کو اور کچھ نہیں دیا نااہل اور ناتجربہ کار ٹیم نے معاشی بدحالی کو اس قدر بڑھاوا دیا کہ اب آمدنی محدود اور اور مہنگائی کا دائرہ وسیع ہورہا ہے لوگ پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے چوریوں اور ڈکیتوں پر مجبور ہوگئے جرائم کی شرح میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے جبکہ پولیس کی روایتی سستی کے باعث جرائم کے چوری چکاری اور ڈکیتی کی وراداتیں تھمنے میں
نہیں آرہیں گزشتہ دنوں گوجر خان تھانے کی حدود میں واقع مسہ کسوال اور اس کے گرد ونواح میں ہونے والی چوری اور لوٹ مار کی وارداتوں نے عوام کو عدم تحفظ کا شکار بنا دیا ہے ایک واردات میں دوموٹر سائیکل سوار نوجوانوں تیل کمپنی چوک کے قریب جی ٹی روڑ پر خراب ہو کر کھڑے ہو جانے والے مزدا کے ڈرائیور اور اس کے ساتھی سے اسلحہ کے زور پر 65 ہزار کی رقم اور موبائل چھین کر فرار ہوگئے دوسرے واقعہ میں جہنڈ مہلو روڑپر واقع اہھیر فارم ہاوس کے قریب نالہ کانسی پل پر مسلح افراد آنے جانے والے درجنوں افراد کو اسلحہ کے زور پر ان کی رقوم اور قیمتی اشیاء چھین لی گئیں جبکہ اسی جگہ ایک عمررسیدہ خاتون کو اس کے زیورات اور نقدی سے محروم کردیا گیااس واردات میں تعمیراتی میٹریل کا کاروبار کرنے والے ڈیلر سے ایک لاکھ تیس ہزار روپے چھین لیے گئے دیگر کئی افراد کو بھی اسی مقام پر لوٹا گیا ایک اور واردات میں مسہ کسوال ہائی اسکول کے قریب نامعلوم چور ایک گھر سے دو عدد بھینسیں لے گئے تواتر سے ہونے والی وارداتوں کے باعث علاقہ مکین خود کو انتہائی غیر محفوظ تصور کررہے ہیں اور وہ اس میں بجا طور پر حق بجانب بھی ہیں کیونکہ اب جرائم کو معمولات کی حیثیت حاصل ہوچکی ہے اور جس سماج میں ایسی وارداتیں معمول بن جائیں اس سماج کے وجود کا کوئی جواز باقی نہیں رہتا اس ساری صورتحال کا ذمہ آخر کس کو ٹھہرایا جائے؟؟؟

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں