عبدالستار نیازی ‘ نمائندہ پنڈی پوسٹ
تبدیلی سرکار کے دور اقتدار میں کیا بدلا ؟ پروٹوکول ، ہٹو بچو کی آوازیں ، عوام کے ملازم عوام پر رعب جماتے رہے ، سروس روڈ پر سپیشل ڈیوٹی پر تعینات پولیس افسران و اہلکاران ضلعی افسران کو پروٹوکول دیتے ہوئے عوام کیلئے وبال جان بنے رہے، گوجرخان میں کھلی کچہری بند ہال میں لگی اور پھر مچھلی منڈی بنی رہی، سیاست چمکائی جاتی رہی، عوام کے ہاتھوں سے مائیک کھینچے جاتے رہے، آخر کب تک ایسے ڈرامے چلتے رہیں گے؟خاص مقصد کے تحت بلدیہ کونسلرز ، عملہ کو اودھم مچانے کیلئے ٹاسک دیا گیا ؟کونسلرز کی نشستیں آگے، سائلین پیچھے رُلتے رہے، یہ کوئی سیاسی جلسہ نہیں تھا بلکہ سرکاری طور پر ضلعی حکومت کی کھلی کچہری تھی، کھلی کچہری کے بعد عوام نے سوالات اٹھا دیئے، جی ہاں کھلی کچہری ہمیشہ اور حسب معمول فوٹوشوٹ اور پریس ریلیز کی حد تک کامیاب رہی، جس کو کچھ صحافیوں نے اچھا لکھنے کی بہت کوشش کی لیکن اس وقت تک بہت دیر ہوچکی تھی، اسسٹنٹ کمشنر غلام مصطفی کی موجودگی میں یہ پہلی کھلی کچہری گوجرخان میں ضلعی انتظامیہ کی جانب سے لگائی گئی تھی اس لئے انہیں ایسی صورتحال کا اندازہ نہیں تھا، ورنہ 2ہزار روپے جیب سے دے کر وہ ساؤنڈ سسٹم لگوا لیتے ، کھلی کچہری کے دوران اسسٹنٹ کمشنر کے ماتھے پہ پسینے چھوٹتے رہے ، چیئرمین بلدیہ نے چونکہ پوری ذمہ داری اپنے ماتحت عملہ کو سونپ رکھی تھی اس لئے وہ اپنی کرسی سے نہ ہلے، گوجرخان میں ضلعی انتظامیہ ڈپٹی کمشنر راولپنڈی محمد علی رندھاوا، سی پی او راولپنڈی احسن عباس کی جانب سے کھلی کچہری کا انعقاد ٹی ایم اے ہال گوجرخان میں کیا گیاتھا ، جہاں پر کھلی کچہری کاآغاز 40منٹ کی دیر سے ہوا ، وقت کی پابندی ادارے کی اہم نشستوں پر براجمان افراد کی اولین ترجیح ہونی چاہیے جو یہاں نظر نہ آئی، اس سے بڑھ کر ظلم یہ کہ شکست خوردہ سابق امیدوار برائے ایم این اے چوہدری عظیم ، راجہ طارق کیانی کی کرسیاں بھی سٹیج پر لگائی گئی تھیں، ڈی ایس پی سرکل گوجرخان کی کرسی پر راجہ طارق عزیز بھٹی براجمان نظر آئے اور بیچارے ڈی ایس پی اپنی کرسی ڈھونڈتے رہے، حالانکہ کرسی پر باضابطہ لکھی ہوئی پرچی لگی تھی کہ یہاں پر ڈی ایس پی سرکل گوجرخان نے بیٹھنا ہے، بدانتظامی کی وہ حالت کہ بیان سے باہر ہے، کھلی کچہری کے آغاز سے ہی بدمزگی شروع ہوئی، ناقص انتظامات کے باعث کھلی کچہری کم اور مچھلی منڈی زیادہ لگ رہی تھی، ڈپٹی کمشنر راولپنڈی اور سی پی او راولپنڈی نے عوام کے مسائل سنے ، مگر ساؤنڈ سسٹم کے ناکارہ ہونے کی وجہ سے سائلین کو خود سمجھ نہیں آرہی تھی کہ وہ سوال کیا کریں، سائلین نے پولیس ، محکمہ مال، منشیات فروشی ، جواء ، قتل و غارت گری، ہوائی فائرنگ ، اراضی ریکارڈ سنٹر کے خلاف کھل کر اپنی بھڑاس نکالی، جبکہ ترقیاتی منصوبوں میں مبینہ کرپشن پہ بھی عوام نے سوالات اٹھائے، کھلی کچہری میں ایم پی اے چوہدری جاوید کوثر، ایم پی اے چوہدری ساجد محمود نے بھی شرکت کی، اس موقع پر سائلین نے پولیس تھانہ گوجرخان ، پولیس تھانہ جاتلی کے خلاف شکایات سی پی او راولپنڈی کو درج کرائیں، مختلف قتل مقدمات کے ملزمان گرفتار نہ ہونے پر عوام سراپا احتجاج دکھائی دیئے، مرزا رمضان اور چوہدری ضیافت حسین نے بطور سیاسی ورکر اپنا اپنا حصہ ڈالا ، مسلم لیگی رہنما سید ندیم عباس بخاری اپنی بلدیہ کے خلاف پھٹ پڑے ،شہر کے معروف تاجر نے گوجرخان کے سہراب گوٹھ کے بارے میں بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ یہاں پر جو بھی ایس ایچ او اور ڈی ایس پی تعینات ہوتاہے اس کو پتہ ہوتا ہے کہ منشیات فروشی اور سود کا کاروبار کہاں ہورہاہے، مگر ان کے خلاف کاروائی نہیں کرتے جس سے ہماری نوجوان نسل تباہ ہورہی ہے، اس موقع پر پی ٹی آئی رہنماؤں نے گوجرخان میں کام کرنے والے اداروں اور ان کے ذمہ داران کی کارکردگی پر سوال اٹھائے ، جبکہ مسلم لیگ ن اور پی ٹی آئی میں تلخ کلامی بھی دیکھنے میں آئی،میڈیا نمائندوں کیلئے کرسیاں کم پڑ گئیں، انتظامات غیر تسلی بخش ہونے کی وجہ سے صحافی بھی سیخ پا نظر آئے،ڈپٹی کمشنر خاموش طبیعت یہاں بھی قدرے خاموش دکھائی دیئے، یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ پولیس تھانہ جاتلی اور تھانہ گوجرخان کے ایس ایچ اوز ، سب انسپکٹرز اور اسسٹنٹ سب انسپکٹرز کے نام لے کر عوام نے شکایت کی مگر سی پی او راولپنڈی کو ہمت نہ ہوئی کہ موقع پر کوئی آرڈر جاری کرتے، گوجرخان سے دو ہفتہ قبل اغواء ہونے والی دو بچیوں کی والدہ ، والد نے دہائی دی جس پر سی پی او راولپنڈی نے تین دن کا وقت مانگ کر ڈی ایس پی سرکل گوجرخان کو جلد ملزمان کی گرفتاری کا حکم دیا ، بند ہال میں لگی اس کھلی کچہری کے دوران سائلین اپنے سوالات کیلئے منتیں کرتے رہے جبکہ بلدیہ عملہ ان کے ہاتھوں سے مائیک چھینتا رہا، عجیب صورتحال اس وقت پیش آئی جب دھکا سٹارٹ ساؤنڈ سسٹم نے کام کرنا چھوڑ دیا، سائلین اپنے گلے پھاڑ پھاڑ کر اپنی شکایات سناتے رہے ، جن کی آواز سٹیج تک نہ پہنچنے کی وجہ سے ڈپٹی کمشنر اور سی پی او راولپنڈی بھی حیران پریشان تھے ،سائلین اپنی شکایتیں سنانے کیلئے سٹیج پہ چڑھ دوڑے جن کو بلدیہ عملہ سٹیج سے اُتارتا رہا، اس ساری صورتحال میں میزبان کھلی کچہری اسسٹنٹ کمشنر گوجرخان غلام مصطفی کے ماتھے پہ پسینے چھوٹتے رہے ، کبھی ساؤنڈ سسٹم کی آواز صحیح کرنے اور کبھی عوام کو بٹھانے کیلئے انتظامیہ کو ہدایات جاری کرتے رہے ، اس دوران چیئرمین بلدیہ کرسی کیساتھ چپکے رہے، سی پی او راولپنڈی کے ترجمان مرزا زمان رضا کو سائلین نے بار بار مخاطب کرکے کہا کہ انہیں ساری معلومات ہیں لیکن ہماری دادرسی نہ ہورہی ہے، قتل و غارت گری کے واقعات میں نامزد ملزمان کو گرفتار نہ کرسکنا گوجرخان کے تینوں تھانوں کی ناکامی ہے ، سابق اے ایس پی گوجرخان شہزادہ عمر عباس بابر کی تعریف میں بھی لوگوں نے باتیں کیں کہ اس شخص نے اس مافیا پر ہاتھ ڈالا تھا جس پر آج تک کوئی ہاتھ نہ ڈال سکا لیکن انعام کے طور پر اسے یہاں سے ٹرانسفر کر کے مافیا کو کھلی چھٹی دی گئی، نفری کے حوالے سے سی پی او راولپنڈی نے واضح کیا کہ تھانہ گوجرخان کے پاس 159 ملازمین پر مشتمل نفری موجود ہے ، ٹریفک مسائل کے حوالے سے چیف ٹریفک آفیسر محمد بن اشرف سے بات کرکے معاملات حل کرنے کی بھی یقین دہانی کرائی، جبکہ تحصیل ہیڈکوارٹرہسپتال گوجرخان میں خدمت سنٹر، 15 نمبر کی بحالی کی بھی یقین دہانی کرائی گئی، مگر عوام نے کھلی کچہری کے اختتام پر شدید مایوسی کااظہار کرتے ہوئے کہا کہ کھلی کچہری صرف فوٹوسیشن اور کاغذی خانہ پُری کے علاوہ کچھ نہ تھی جس پر ہمیں شدید مایوسی ہوئی، میرے تجزیے کے مطابق نظام میں اصلاحات کے بغیر کسی ادارے میں بیٹھے بے لگام ہاتھیوں کو لگام نہیں ڈالی جاسکتی اور اس میں پی ٹی آئی حکومت بری طرح ناکام نظرآرہی ہے، ضرورت اس امر کی ہے نظام میں اصلاحات کیلئے لائحہ عمل مرتب کیا جائے
154