دل کا موسم اس وقت سہانا اور مثبت ہوتا ہے جب ہرسو محبتوں کے پھول کھلے ہوں لیکن اگر پیار ومحبت کی بہار کے ساتھ دل میں موجود بغض وعناد کی آکاس بیل پروان چڑھنے لگے تو پھر دل کی سرزمین بنجر ہوجاتی ہے مکین ومسکن میں ویرانیوں کا راج بڑھنے لگتا ہے۔ذمہ داری انسان کے اندر سانس لیتی ہے جو رشتوں ناتوں اور بندھنوں کو انتہائی ذمہ داری سے نبھاتے ہیں۔وہی کامیابی کی منزل تک پہنچتے ہیں۔مسلم لیگ گوجر خان جو ایک طویل عرصہ سے دھڑے بندی کا شکار ہے۔اور دھڑوں میں موجود اختلاف کی خلیج کسی رہنماء نے بھی سنجیدگی سے پاٹنے کی کوشش نہیں کی گو کہ تمام رہنماء اس گروپنگ سے انکاری ہیں لیکن گراؤنڈ پر اختلاف کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ان دنوں اپوزیشن کے لانگ مارچ کو لے کر گوجرخان میں مریم نواز اور حمزہ شہباز کی استقبال کے حوالے سے لیگی حلقوں کافی ہلچل ہے۔لیکن یہاں بھی اس معاملے پر الگ الگ اجلاس کیے جارہے ہیں۔لانگ مارچ کے حوالے فوکل پرسن مقرر ہونے والے سابق ایم این اے راجہ جاوید اخلاص اس سلسلے میں متحرک ضرور ہیں لیکن اس موقع پر بھی وہ اختلافات ختم کروانے میں کردار ادا کرنے سے قاصر نظر آتے ہیں وہ گوجرخان میں چوہدری ریاض گروپ کے اجلاس میں بھی شریک ہوئے جہاں چوہدری افتخار وارثی کو بلانا مناسب نہیں سمجھا گیا حتی کہ لانگ مارچ کے حوالے سے بنے اشتہار میں بھی ان کی تصویر لگانے کی زحمت نہیں کی گئی جس کے ردعمل میں چوہدری افتخار وارثی کی جانب سے 23 مارچ کے روز بیول میں لانگ مارچ کے حوالے سے مشاورتی اجلاس بلا کراپنی بھرپور سیاسی قوت کامظاہرہ کیا گیا۔راجہ جاوید اخلاص اور پی پی آٹھ کے صدر چوہدری خالد کے علاوہ سابق چیئرمینوں‘کونسلرز اور معززین علاقہ کی ایک کثیرتعداد موجود تھی انتہائی کم نوٹس پر شرکاء کی بہت بڑی تعداد کا اجلاس میں شریک ہونا چوہدری افتخار وارثی کی حلقہ پی پی میں مضبوط سیاسی گرفت کا عکاس ہے۔اجلاس میں لانگ مارچ کے حوالے سے اہم نکات پر بات چیت ہوئی۔ چوہدری افتخار وارثی دھیمے لہجے کے کم گو اانسان ہیں لیکن سیاست کے داؤ پیچ میں ان کا اس علاقے میں شاید ہی کوئی ثانی ہو۔ان کے مخالفین انہیں عزت دے کر ہی ان سے عزت و حمایت لے سکتے تھے بلکہ لے سکتے ہیں لیکن نفرت وعناد کی بنیاد پر انہیں نظر انداز کرکے مسلم لیگ کو مضبوط بنانے یا اسے دوبارہ ماضی کے مقام پر لانا ایک خواب ہی ہوسکتا ہے۔اپنی میں کی گردان محض خود فریبی ہے اور خود فریبی ایک عذاب ہوتی ہے۔
