77

گوجرخان میں شہریوں کا لٹنے کا سلسلہ نہ تھم سکا

طالب حسین آرائیں،پنڈی پوسٹ/دور حاضر کے ناگوار حالات دل کو بوجھل کرنے کا باعث بن رہے ہیں۔دنیا بھر میں ممالک اور ان کے ادارے اپنی عوام کو تحفظ فراہم کرتے ہیں وہ تحفظ جان و مال کے علاوہ معاش کے حوالے سے ہوتا ہے۔مگر بدقسمتی سے ہماری یہاں عقل واختیارات کا استعمال صرف اور صرف ذاتی مفاداور دولت کے حصول کے لیے کیا جاتا ہے اگر اس کا آدھا فیصد استعمال بھی ملکی مفاد کے لیے ہو تو اب تک ملک کی تقدیر اور صورت حال بدل چکی ہوتی۔یوں تو پاکستانی قوم گذشتہ تہتر سالوں سے مصائب وآلام سے برسر پیکار ہے لیکن موجودہ دور حکومت میں عوام تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچنے والی مہنگائی کے علاوہ رو زانہ کی بنیاد پر چوروں ڈاکوؤں اور لٹیروں کے ہاتھوں درناک عذاب کا بھی شکار ہیں ویسے تو لوٹ مار کی ورادتیں ہر دور میں ہوتی رہی ہیں لیکن موجودہ حالات میں مہنگائی اور لوٹ مار کی وارداتیں نئی تاریخ رقم کر رہی ہیں۔عوام حکمرانوں اور ڈاکوؤں کے ہاتھوں مکمل طور پر غیر محفوظ ہو چکے اسوقت عوام صرف لٹ رہے ہیں آئینی اور غیر آئینی ڈاکوؤں کے ہاتھوں۔یوں تو پورے پاکستان میں خصوصاً پورے پنجاب میں چھینا چھپٹی لوٹ مار اور چوری چکاری کی وارداتیں اب معمول بن چکی ہیں لیکن تحصیل گوجر خان میں دن دیہاڑے گھروں داخل ہو کر اہل خانہ کو یرغمال بنا کر لوٹنے۔نوسربازی سے سے رقوم اینٹھنے اور راہ زنی کی وارداتیں ایک تسلسل سے جاری ہیں گذشتہ تین چارماہ کے دوران گوجرخان پولیس اسٹیشن کی حدود میں درجنوں وارداتیں رونما ہوچکی جبکہ ان وارداتوں کا حدف زیادہ تر پولیس چوکی قاضیاں کے زیر کنٹرول علاقے رہے۔زیادہ افسوس ناک پہلو یہ رہا کہ ان تمام وارداتوں میں سے کسی ایک بھی واردات کا سراغ نہ مل سکا قانون کی آپاہجی عوام کو خون کے آنسو رولاتی ہے مگر حکمران طبقہ نوٹس لینے کی خبر شائع کروا کے خود کو معصوم ثابت کرکے مطمئن ہوجاتا ہے۔نوٹس لے لیا‘سرزنش کی‘آئندہ کوتاہی برداشت نہیں کریں گے۔ عوام کے جان ومال سے کھیلنے کی اجازت نہیں دیں گے یہ وہ الفاظ ہیں جوہر واردات کے بعد بیول اور گوجر خان کی عوام کو سننے کو ملتے ہیں اب تو کان بھی پک چکے کمال کے ا فسران اور کمال کے منتخب نمائندے ہیں کمال کے پالیسی میکرز ہیں. کچھ کرنے کے بجائے ایک کے بعد دوسری واردات کے رونما ہونے کا انتظار کرتے ہیں اور پھر میڈیا کے سامنے اس تباہ حال عوام کے دکھ میں افسوس اور یکجہتی کا اظہار کرتے ہیں عوام کو ذہنی انتشار کا شکار کر کے خود آرام سے بیٹھ کر بین باتے ہیں زندہ قومیں زندگی کی سلامتی کے لیے متحرک ہوتی ہیں مگر یہاں وارداتوں کی تعدار اور ان میں لوٹے جانے والے مال اسباب کا ذکر ہی سننے کو ملتا ہے جہاں پہلے ہی بے روزگاری کا قحط ہو وہاں نئے نئے یٹکسوں کی بھرمار صنعت کو تباہی سے دوچار کر رہی ہے جب صنعت تباہ ہوگی تو بر روز گاری بڑھے گی اور جب بے روز، گاری بڑھے گی تو پھر ہر طرف ڈاکو راج ہوگا۔جو اس وقت صاف دیکھائی دے رہا ہے کوئی دن خالی نہیں جس روز کہیں سے کسی واردات کی اطلاع نہ ملے آخر خلوص کی چاشنی سے ناآشنا حکمرانوں کو کب عوامی مفادت کا خیال آئے گا۔کیا پے در پہ ہونے والی وارداتوں پر حکمران طبقے کی جانب سے گوجر خان پولیس قاضیاں چوکی کے انچارج سے کوئی باز، پرس کی گئی۔شاید نہیں کیونکہ اس ملک کی سیاست تھانے کچری اور پٹواری کی مرہون منت ہے تبدیلی کے دعوےٰ دار خود تو لوٹ ہی رہے ہیں ڈاکوں اور لیٹروں کو بھی کھلی اجازت ہے۔کیوں کہ یہ ویلہ مڑ نہیں آوناں۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں