عبدالستار نیازی/قارئین کرام! ایک ہفتہ قبل انجمن تاجران گوجرخان کے الیکشن کے متعلق راقم نے جو تجزیہ کیا تھا اس کے مطابق رزلٹ آیا جس پر خدا کا جتنا شکر ادا کروں وہ کم ہے کیونکہ سوچنے سمجھنے، لکھنے پڑھنے کی صلاحیتیں اسی رب کریم کی عطا کی ہوئی ہیں، مرکزی انجمن تاجران کے الیکشن میں راجہ جواد پینل نے کامیابی حاصل کی اور تاجر اتحاد گروپ کو شکست کا سامنا کرنا پڑا، آج کی تحریر میں ہار اور جیت کے مختلف پہلوؤں پر لکھنے کی کوشش کررہاہوں جو میری نظر سے گزرے،جن مثبت پہلوؤں کی وجہ سے جیت ہوئی اور جن منفی پہلوؤں کی وجہ سے ہار ہوئی ان کو سامنے رکھتے ہوئے مرکزی انجمن تاجران کے دونوں گروپس کو آئندہ کا لائحہ عمل طے کرنا چاہیے، گوجرخان پرامن شہر ہے اور اس کو پرامن رکھنے میں کلیدی کردار تاجر برادری کا ہے، دو دن سے مختلف تاجروں کے خیالات، جذبات اور احساسات اور ان سے ہونے والی گفتگو پر میں یہ تحریر لکھ رہاہوں، گوجرخان کی تاریخ میں پہلی بار الیکشن ہوئے جن میں ووٹ کا ٹرن آؤٹ ناقابل یقین رہا اور 85%سے 87% تک ووٹ پول ہوئے جو کہ پوری تاجر برادری کی تاریخی جیت ہے، راجہ محمد جوادگروپ نے اپنی الیکشن کمپین کے دوران منفی پراپیگنڈے اور تنقید سے اپنے سٹیج کو حتی الامکان بچائے رکھا بعض جگہوں پر جذباتی تقاریر دیکھنے میں آئیں لیکن کسی کی کردار کشی نہیں کی گئی جبکہ سوشل میڈیا پر لفظی گولہ باری دونوں جانب سے آخری دن تک جاری رہی اور دونوں گروپس کے حمایتی رزلٹ آنے تک پرامید رہے اور حوصلہ بندھاتے رہے کہ ہماری جیت یقینی ہے، الیکشن سیاسی ہو، صحافتی ہو، تاجروں کا ہو یہ اصول ہمیشہ ذہن میں رکھنا چاہیے کہ آپ اپنی جیت کیلئے لڑ رہے ہیں کسی کی ہار کیلئے نہیں، جب آپ نے کسی کی ہار کو سامنے رکھ کر اپنا ورک کرنا شروع کیا تو اسی لمحے آپ خود ہار جاتے ہیں، تاجر اتحاد گروپ نے گزشتہ ایک ڈیڑھ سال سے اپنی کمپین بھرپور طریقے سے چلائی لیکن گزشتہ ایک ڈیڑھ ماہ سے سوشل میڈیا پر ”انھے واہ“ تنقید نے بہت سارے حمایتیوں کو بھی مخالف کر دیا، تاجر اتحاد گروپ کے سٹیج سے بارہا دفعہ ایسی تقاریر سننے کو ملیں جو نہیں ہونی چاہئیں تھی اور اس کا برملا اظہار شہر کے بازاروں کے مختلف لوگوں نے کیا ہے کہ ہم تاجر اتحاد گروپ کے حامی تھے لیکن ان کے سٹیج پر اچھی شہرت نہ رکھنے والے افراد کو دیکھ کر ہم نے ووٹ دینے کا ارادہ ترک کر دیا،گزشتہ جمعہ کے دن جمعہ کے بعد ان کے ایک رشتہ دار نے بھی ووٹ نہ ملنے اور ہار کی بنیادی وجہ یہی بتائی،ان موصوف کا کہنا تھا کہ اگر وقاص اکبر مرزا اور سعادت حسن اکیلے تقاریر کرتے اور اپنے ساتھ کھڑے ہونے والوں کو مائیک نہ دیتے تو واضح اکثریت سے وہ الیکشن جیت سکتے تھے ان کی ہار میں کلیدی کردار بے وقعت باتیں کرنے والوں نے ادا کیا، ووٹ نہ دینے والا نظریات کا مخالف ضرور ہو سکتاہے لیکن آپ کا دشمن نہیں ہوسکتااس لئے نظریہ ہمیشہ یہ رکھنا چاہیے کہ ہم نے سب کو ساتھ لے کر چلناہے، ووٹ اندراج کے متعلق دونوں جانب تشویش پائی جاتی ہے ایک گروپ کا کہنا ہے کہ ہماری درج شدہ ووٹس کاٹی گئیں اور من پسند افراد کے نام درج کئے گئے جبکہ دوسری جانب سے یہ الزام لگا ہے کہ مخالف فریق نے خودساختہ ووٹ کا اندراج کررکھا تھا، بہرحال اس بار تو الیکشن ہو گئے اصل الیکشن دو سال بعد انجمن تاجران گوجرخان کے ہوں گے جس میں ایک ایک ووٹ کا اندراج مکمل تصدیق و تحقیق کے بعد کیاجائے گا اور شناختی کارڈ نمبر کے غلط ہونے کی بھی گنجائش نہیں رہے گی، اس بار کئی افراد کے شناختی کارڈ نمبر ہی غلط درج تھے اور کئی ایک ووٹ کے حق سے بھی محروم رہے، الیکشن کمیٹی نے اپنا بہترین اور کلیدی کردار ادا کیا جس پر سب مبارک باد کے مستحق ہیں اور پر امن الیکشن کے انعقاد پر دونوں گروپس بے شمار مبارک باد کے مستحق ہیں اور سب سے زیادہ مبارک باد کا مستحق گوجرخان کا تاجر ہے جس نے اس الیکشن میں ووٹ ڈال کر اپنے رہبروں اور رہنماؤں کا انتخاب کیا، راجہ محمد جواد گروپ نے بڑے دل کا مظاہرہ کرتے ہوئے جیت کے فوری بعد کہا کہ ہم خود تاجر اتحاد گروپ کا شکریہ اد اکرنے جائیں گے، اب الیکشن ختم ہوگئے ہیں اور ہم سب بھائی بھائی ہیں سب مل جل کر اس شہر کی بہتری تاجر برادری کی بہتری کیلئے کام کریں گے جبکہ دوسری جانب سے تاجر اتحاد گروپ کے رہنماؤں نے مثبت ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ نومنتخب صدر و جنرل سیکرٹری ہمارے بھی اتنے ہی رہنما ہیں جتنے اپنے حمایتیوں کے، اب ہم مل کر ان کے ساتھ چلنے کا عزم کرتے ہیں،ووٹ سے منتخب ہونے والوں کو عزت و تکریم دیں گے، گزشتہ روز انارکلی بازار میں تاجر اتحاد گروپ اور راجہ جواد کے حامیوں نے بھرپور انداز میں استقبال کیا اور یہ پیغام دیا کہ ووٹ کے ذریعے منتخب ہونے والے کو سب تاجر عزت و تکریم سے نوازیں گے، یہ مثبت پیش رفت گوجرخان کی تعمیر و ترقی کیلئے نیگ شگون ہے اور امید کرتے ہیں کہ اسی طرح تعمیر و ترقی کا سفر جاری رہے گا۔
192