وقت اپنی مخصوص رفتار کے ساتھ مسلسل چل رہا ہے یہ کسی کے روکے رکتا نہیں دن‘ہفتے‘مہینے اور پھر سال اپنی چال چلتے جا رہے ہیں کہیں وقت کے ساتھ ساتھ چل کر اپنے معاملات کو بہتر سے بہتر بنانے کی جستجو کی جاتی ہے اور کہیں وقت صرف سال مکمل ہونے پر ہندسے بدلتا رہتا ہے جبکہ حالات وواقعات جوں کے توں رہتے ہیں پاکستان میں بھی سات دہائیوں سے گذرتے ماہ وسال صرف ہندسے بدلتے چلے آرہے ہیں اس لیے عوام کے حالات جوں کے توں ہیں کیونکہ بااختیار طبقہ انہیں بدلنا ہی نہیں چاہتاپاکستان کی چوہتر سالہ تاریخ میں عوام کو طفلانہ تسلیوں کے سوا اور کچھ نہیں ملا بازی گر صورتیں بدل بدل کر تماشہ لگاتے رہے اور قومی خزانے پر جی جان سے ہاتھ صاف کیے جاتے رہے عوام آج بھی بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں ایسے میں علامہ اقبال ؒ کا خواب ہو یا قائداعظم ؒکی آرزو ہم ان کے سامنے شرمندہ نہ ہوں تو کیا ہوقوم ایجوکیشن‘صحت اور سفری سہولیات تک سے محروم رہی بڑوں شہروں کو چھوڑ کر اگر چھوٹے شہروں میں نواحی دیہاتوں کی جانب چلائی جانے والی پبلک ٹرانسپورٹ پر ہی نظر ڈالیں تو یہ عوام کے لیے کسی عذاب سے کم نہیں گذشتہ روز پنڈی پوسٹ کے ایک قاری نے رابطہ کر کے گوجرخان ویگن اڈاپر عوام کو سہولیات کی عدم فراہمی کی جانب توجہ مبذول کروائی قاری کی جانب سے جو نکات اُٹھائے گئے وہ کافی حد تک حقیت کے قریب تر ہیں گوجرخان اڈا پر انتظار گاہ کا نہ ہونا ایک بڑا المیہ ہے گرمیوں میں مسافر تپتی دھوپ میں گاڑیوں کے انتظار میں کھڑے لوکل انتظامیہ کی بے حسی پر ماتم کرتے نظر آتے ہیں‘جبکہ بارش کے دوران پانی میں بھیگتے اور سردی میں ٹھرٹھراتے جسموں کے ساتھ بے بسی کا نمونہ پیش کرتے ہیں دوسری جانب اس اڈے سے بیول سمیت اردگرد کے دیہاتوں کے لیے مسافروں کو سفر کی سروس فراہم کرنے والی زیادہ تر ویگنیں اپنی طبی عمر پوری کرچکی ہیں اگر ملک میں قانون پر عملداری کا رواج ہوتا تو ایسی گاڑیاں کباڑ میں فروخت ہوچکی ہوتیں لیکن جس ملک میں رشوت کے عوض تعلیمی بورڈ سے گریڈون مل جاتا ہورشوت کے عوض جعلی نکاح نامہ‘جعلی این آئی سی‘جعلی میڈیکل سرٹیفیکٹ‘جعلی لائسنس تک بنوایا جاسکتا ہو وہاں ناکارہ گاڑیوں کا فٹنس سرٹیفکٹ بنانا کیا مشکل ہے دنیا ترقی کی معراج پر ہے عوام کو سفری سہولیات کی فراہمی کے لیے جدید سے جدید گاڑیاں متعارف کروائی جاتی ہیں اس کے برعکس ہمارے یہاں دیہات میں رہنے والوں کے لیے برسوں پرانی گاڑیاں ہی استعمال کی جارہی ہیں جبکہ کرائے کے حوالے آر ٹی اے کے منظور شدہ کرایوں کو نظر انداز کرکے کہیں زائد کرائے وصول کیے جاتے ہیں غیرقانونی طور پر ٹرانسپورٹ مافیا دو مسافروں کی نشست پر تین‘ تین کی نشست پر چار اور چار کی نشست پر پانچ افراد بٹھا کر مسافروں کو مشکل حالات میں سفر پر مجبور کرتے ہیں اور اس غیرقانونی عمل پر ان کی گوشمالی بھی نہیں ہوتی کیونکہ یہاں کوئی ادارہ اپنی ذمہ داری پوری کرنے میں سنجیدہ نہیں ضرورت اس امر کی ہے کہ انتظامیہ ویگن اڈا میں مسافروں کے لیے شیلٹر کی فراہمی کے علاوہ سیٹ بائی سیٹ کے قانون پر سختی سے عمل کروائے آر ٹی اے کے جاری کردہ کرایے نامے کے تحت کرایے کی وصولی ممکن بنانے کے ساتھ ساتھ گاڑیوں کی فٹنس کے لیے چیک اینڈ بیلنس کا نظام بھی واضح کرنا چاہیے لیکن شاید ایسا نہ ہو کیونکہ ہم بحیثت قوم بے حس اور بے ضمیر ہیں۔
121