151

گوجرخان‘قومی اسمبلی کی سیٹ ایڈجسمنٹ‘حقیقت یا افسانہ

حالات کی ستم ظریفی کبھی کبھی ایسے دوراہے پر لاکھڑا کرتی ہے جہاں بہت سی ان چاہی اور ناپسندیدہ باتوں کو بھی اپنانا پڑتا ہے کیونکہ ضرورتیں نہایت ہی سفاک ہوتی ہیں جو ایسا بے بس کردیتی ہیں کہ انسان وہ کچھ کرنے پر مجبور ہوجاتا ہے جس کے بارے میں عام حالات میں وہ سوچ بھی نہیں سکتا۔پاکستان مسلم لیگ ن عمران خان کی حکومت کوگرانے کے لیے پیپلز پارٹی کی مدد سے اپنے مشن میں توکامیاب ٹھہری لیکن وہ اس کامیابی کی جو قیمت ادا کرنے جارہی ہے اس کی ادائیگی کے بعد شاید ان کے پلے کچھ بھی نہ رہے پیپلز پارٹی پنجاب میں اپنا وجود بلکل اسی طرح کھو چکی ہے جس طرح ن لیگ سندھ میں اپنا وجود کھو چکی پیپلز پارٹی کو پنجاب میں دوبارہ اپنے قدم جمانے کے لیے ایک سہارے کی اشد ضرورت ہے جو مسلم لیگ فراہم کرسکتی ہے۔عمران خان کو ہٹانے کی خواہش نے مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کو قریب کردیا پیپلز پارٹی کی جانب سے پنجاب میں قومی اسمبلی کی کچھ نشستوں پر مسلم لیگ کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ بارے تاثر دیا جارہا ہے ان نشستوں پر گوجر خان سے راجہ پرویز اشرف کی نشست پر بھی سیٹ ایڈجسٹمنٹ کا تاثر جڑ پکڑ رہا ہے شنید ہے کہ راجہ پرویز اشرف اس نشست پر مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی دونوں کے مشترکہ امیدوار ہوسکتے ہیں۔جبکہ نیچے کی دونوں نشستوں پر لیگی امیدوار بھی دونوں جماعتوں کے مشترکہ امیدوار ہوں گے۔مسلم لیگ کے کسی ذمہ دار مرکزی رہنماء کی جانب سے ان اطلاعات کی تصدیق یا تردید سامنے نہیں آسکی لیکن مقامی لیگی رہمناؤں کی جانب سے اس کی تردید کی جارہی ہے گوجرخان سے باہر مرکزی قیادت سے مسلسل رابطے میں رہنے والی ایک بڑی مسلم لیگی شخصیت نے رابطہ کرنے پر ان اطلاعات کو ڈس انفارمشن قرار دیتے ہوئے اس امکان کو سرے سے رد کردیا بہرحال اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ مسلم لیگ کے کسی طور فائدے کا سودا نہیں ہوگا ایڈجسٹمنٹ کے فوائد اور مضمرات پر نظر ڈالیں تو فائدہ کم اور نقصان زیادہ دیکھائی پڑتا ہے۔شاید کہ اس سیٹ ایڈجسٹمنٹ سے تینوں نشستوں پر کامیابی تو ممکن ہو جائے لیکن پارٹی کا یہ عمل گذشتہ ساڑھے تین چار سال کی مشکلات کے دوران پارٹی کے ساتھ خلوص نیت سے چلنے والے لیگی رہنماؤں سے زیادتی کے مترداف ہوگا اس فیصلے سے مسلم لیگ مزید ٹوٹ پھوٹ کا شکار بھی ہوسکتی ظاہر ہے کہ اس فیصلے کا ری ایکشن بھی نظر آئے گا کیونکہ پاکستانی سیاست کسی نظریے اور کسی اصول کو نہیں مانتی یہ شطرنج کی بساط کی طرح ہے جہاں ایک چال کے ذریعے کھیل کا نقشہ بدل دیا جاتا ہے۔اس وقت گوجرخان میں مسلم لیگ پہلے ہی مختلف دھڑوں میں بٹی ہونے کے باعث انتشار کا شکار ہے مسلم لیگ کے سابق ایم این ایز راجہ جاوید اخلاص اور چوہدری خورشید زمان قومی اسمبلی کے لیے ٹکٹ کے امیدوار ہیں اگر مسلم لیگ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے بعد یہ نشست پیپلز پارٹی کے راجہ پرویز اشرف کے لیے خالی چھوڑتی ہے تو کیا اس کے اپنے دونوں امیدوار اس فیصلے کو پارٹی پالیسی کے تحت خاموشی سے قبول کرپائیں گے۔میری رائے میں یہ ممکن نہیں کیونکہ جب خواہش حسرتوں میں ڈھلنے لگے اور بے بسی انتہا پر آجائے تو دل تو دل روح بھی ٹرپنے اور سسکنے لگتی ہے۔بالفرض اگر نیچے کی دونوں صوبائی
نشستوں پر راجہ جاوید اخلاص اور چوہدری خورشید زمان کو ایڈجسٹ کیا جاتا ہے تو کیا صوبائی اسمبلی کے لیے ٹکٹ کے امیدوار چوہدری افتخار حمد وارثی‘راجہ علی اصغر اور حلقہ نو سے امیدوار شوکت بھٹی‘راجہ بابر کرامت وغیرہ اس فیصلے کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔میری رائے میں جس سے اختلاف کیا جاسکتا ہے کہ حلقہ پی پی آٹھ سے فیصلے کی مخالفت کے ففٹی ففٹی چانس ہیں جبکہ حلقہ نو سے پھرپور ری ایکشن کی توقع کی جاسکتی ہے کیونکہ پارٹی پالیسی کو تسلیم نہ کرنے کی روایت مسلم لیگ گوجرخان کا خاصہ رہی ہے۔2013 اور 2018 کے الیکشن اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ دونوں بار مقامی رہنماوں نے اپنے پارٹی ٹکٹ ہولڈر کی مخالفت کی اور مخالف جماعتوں کو کھل کر سپورٹ کیا بلکہ 2013 میں چوہدری ریاض کی جانب سے مخالف جماعتوں کے جلسے بھی ارینج کروائے گئے مقامی لیگی قیادت کی جانب سے گوجرخان کی سیاست میں پارٹی دھڑے بندی پر کافی سنجیدگی سے غور کیا گیا اور آپس کے خلیج کو پاٹنے کے لیے مل بیٹھ کر باہمی تعاون پر گفت وشنید بھی جاری ہے اور طے ہوچکا کہ ٹکٹوں کے فیصلے ہونے کے بعد گروپنگ بھی دم توڑ دے گی۔گوجرخان کی سیاست پر ایماندارانہ جائزہ پیش کیا جائے تو تحریک انصاف اور ن لیگ کے مقابلے میں پی پی بہت بہتر پوزیشن میں ہے۔دوسری جانب ایک سوال یہ بھی اُٹھایا جارہا ہے کہ کیا دونوں جماعتوں کے نظریاتی کارکنان صرف عمران خان کی مخالفت میں اس ایڈجسمنٹ کو قبول کرپائیں گے تو میرے نزدیک کارکنان کواس سے کوئی مسئلٰہ نہیں ہوگا۔کیونکہ ہمارا سیاسی شعور ابھی اس لیول پر نہیں کہ پارٹی کارکنان اپنے پارٹی لیڈر کے کسی فیصلے پر تنقید کریں یا اسے ماننے سے انکار کریں۔یہاں ہرجماعت کا کارکن اپنے لیڈر کے ہرفیصلے کو سر جھکا کر تسلیم کرتا ہے اس لیے کارکنوں کی سطح پر مخالفت کا تصور غلط سوچ ہے البتہ ٹکٹ نہ ملنے پر امیدواروں کا ری ایکشن کسی بھی صورت میں سامنے آسکتا ہے۔اگر مرکزی قیادت مقامی رہنماؤں کو اعتماد میں لے کر باہمی رضامندی سے فیصلے کرنے میں کامیاب ہوگئی تو تحریک انصاف کا ان نشستوں پر جیتنا مشکل نہیں ناممکن ہوگا۔کیونکہ 2018 میں حلقہ پی پی آٹھ آور حلقہ پی پی نو میں تحریک انصاف مسلم لیگی اکابرین کی باہمی چپقلش اور گروہ بندی کے باعث ملنے والی سپورٹ سے ہی کامیاب ہوپائے تھے جو موجودہ صورت حال ممکن نہیں رہا۔مسلم لیگ کے مرکزی قیادت اس ابہام کو فوری ٹیک اوور کرے اور جو فیصلہ کیا جاچکا ہے اسے اپنے مقامی رہنماوں شیئر کرتے ہوئے ان کو اعتماد میں لے کیونکہ جب ذہن کے گوشوں میں شک کی گرہ پڑ جائے تو پھر وہ آسانی سے مزید الجھتی چلی جاتی ہے جو نقصان دہ بھی ثابت ہوتی ہے۔اس وقت مسلم لیگ پہلے ہی دھڑے بندی کا شکار ہے اگر رہنماؤں کو اعتماد میں لیے بغیر ایسا کوئی فیصلہ لیا گیا تو یہ گوجرخان مسلم لیگ کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوگا۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں