گاؤں کی زندگی کی خوبصورت بہاریں 500

گاؤں کی زندگی کی خوبصورت بہاریں

ساجد محمود
وقت ایک ایسا بہتا دریا ہے جو ہر لمحہ اپنی کروٹیں اور منظر بدلتا ہوا مسلسل آگے بڑھتاجارہا ہے گزرتے وقت کیساتھ رفتہ رفتہ ہماری ثقافت اور رہنے سہنے کے طور طریقے بھی کافی حد تک بدل گئے ہیں اگر ہم آج سے 70یا80 کی دہائی کے دریچوں میں جھانکیں تو آج کی نسبت اس دور کی دیہاتی زندگی کس قدر سادہ اور پرسکون تھی کچے مکان مٹی کے برتن سایہ دار درخت کھلے صحن سرسوں کا ساگ مکئی کی روٹی اور کچی پیاز ٹماٹر ہماری روزمرہ خوراک کا لازمی جزو تھے کیا ہی اچھے دن تھے جب دیہات میں لوگوں کی تفریح کے لیے میلے ٹھیلے لگتے تھے جبکہ لوگوں کی خوراک حددرجہ سادہ لیکن خالص اور ملاوٹ سے پاک تھی مگر اس میں محبت کی مٹھاس اور خلوص کی چاشنی کا اثر نمایاں تھا جن سے ہمہ وقت اپنائیت کی خوشبو آتی تھی بلڈ پریشر اور شوگر جیسی بیماریوں کا وہم وگمان بھی نہیں تھا گھر کے صحن میں اکثر رشتہ داروں پڑوسیوں اور محلے داروں کا ایک ہجوم سا لگا رہتا تھا اور وقفے وقفے سے کوئی نہ کوئی مہمان،ہمسایہ یا محلے دار گھر کی رونق بنا رہتا دادی اماں صحن میں چارپائیوں پر بیٹھ کر مہمانوں کیساتھ گپ شپ میں مگن نظر آتیں مہمان دن کو آئے یا شام کو مجال ہے وہ بغیر کھانا کھائے واپس لوٹ جائے سرد موسم میں روزمرہ زندگی کی خوراک میں تو سرسوں کا ساگ اور مکئی کی روٹی عام تھی تاہم جب گھر میں کوئی مہمان آجاتا تو ہرایک گھرانے کی کوشش یہی ہوتی کہ دیسی مرغے کی ہانڈی اور میٹھی ڈش کے ہمراہ مہمان کی خوب خاطر مدارت میں کوئی کسر باقی نہ چھوڑی جائے بعض اوقات تندوری روٹی اور خالص گھی میں شکر کی ملاوٹ جسم کو تندرست وتوانا رکھنے میں کافی مددگارثابت ہوتی تھی جب کوئی مہمان گھر میں آتا تمام گھروالوں کے چہرے خوشی سے جوم اٹھتے اور گھر میں ایک جشن کا سماں ہوتا تھا مگر آج کے دور میں ہارے ہاں مہمان کو وہ عذت اور پزیرائی نہیں ملتی جسکا پہلے وقتوں کے ہمارے دیہی معاشرے میں رواج تھا سردیوں کی لمبی ٹھٹھرتی راتوں میں دادی اماں گرم رضاعی لپیٹ کر کولے کی انگھیٹی پر اپنے ہاتھوں کو گرم کرتے ہوئے بچوں کو جن بھوت پریت اور چڑیل کی کہانیاں سنایا کرتیں تھیں ان ڈرانی کہانیوں کو سن کر دل میں کافی ڈر اور خوف محسوس ہوتا تھا چونکہ اس دور میں مونگ پھلی کی کاشت عام تھی اس لیے کبھی کبھی سرد راتوں میں مونگ پھلی کیساتھ گڑکی روڑی کا بھی دور چلتا تھا جبکہ چائے پر سبز پتی کے قہوہ کو خاصی فوقیت حاصل تھی مگر موجودہ دور میں تو کسی سے سر رسم راہ ملاقات یا خبرگیری کے لیے وقت نکالنا تو درکنار اب تو ایک دوسرے سے میل ملاقات کے لیے ہمیں کسی کی موت یا شادی کے مواقع ڈھونڈنے پڑتے ہیں پہلے وقتوں میں بعض جان پہچان رکھنے والوں کے گھر تو ایک دوسرے سے کچھ مسافت پر تھے مگر انکی خاص بات یہ تھی کہ دنیوی جھمیلوں کے باوجود ایک دوسرے سے میل ملاقات کے لیے وقت نکال لیا کرتے تھے سب کے دکھ درد سانجھے تھے دکھ کی ہر گھڑی میں حقیقی رشتہ دار ہمدرد دوست احباب،ہمسائے گھر کے کام کاج سنبھال لیتے تھے جبکہ آنکھ چھپکتے ہی تمام الجھے کام بڑے سلیقے سے سرانجام پاتے تھے آج تو تماشبین زیادہ اور درد شناس چہرے کم دکھائی دیتے ہیں اور عہدرواں میں تو خوشی غمی کے مواقع پر بجائے معاونت کرنے کے ہر کام میں عیب نکالنا ہمارا روزمرہ کا وطیرہ بن چکا ہے شادی بیاہ کا موقعہ آئے یا غم کے لمحات پرانے وقتوں کے لوگ ایثار وقربانی کے جذبات سے مزین تھے ہر نشیب وفراز میں اجتماعی طور پر میں سب ایک دوسرے کے شانہ بشانہ کھڑے ہوجاتے شادی کے دنوں میں سہلیاں مل کر خوشی کے گیت گاتیں مرد اور نوجوان ڈھول کی تھاپ پر لڈی ڈالتے اور رقص کرتے تھے غمی کے سمعے میں بھی فوتگی والے گھر کئی دن تک کھانا نہیں پکتا تھا بلکہ رشتہ دار ہمسائے اور دوست احباب کھانا گھر سے تیار کر کے لاتے اور دیر تک غمزدہ خاندانوں کے ہمراہ وقت گزار کر انہیں حوصلہ اور دلاسہ دیا کرتے تھے بلکہ حسب توفیق گندم،اور دیگر اجناس کی صورت میں غمزدہ لواحقین کی بھرپور مدد بھی کیا کرتے تھے اگر کسی گھرانے کا کوئی فرد ولائیت میں ہوتا تو وہ پیسے کی صورت میں مستحق خاندان کی مالی مدد کا بندوبست کردیا کرتا تھا اس دور کے بزرگ ذہنی اُلجھنوں سے آزاد تھے اس لیے شام ڈھلتے ہی گاؤں کے بڑے بزرگ کسی ایک مقام پر جمع ہوجاتے بلکہ اس دور میں تو محلوں کے ڈیرے اور تھڑے بھی آباد تھے چونکہ اس دور بجلی کی سہولت میسر نہیں تھی اس لیے گاؤں کے لوگ گرمیوں کی دوپہر صحن کے کسی گھنے سایہ دار درخت کی گھنی چھاؤں میں بیٹھ کر ایک دوسرے کے دکھ درد بانٹتے رات کو بزرگ ایک جگہ جمع ہوکر ریڈیو پر خبریں سنتے اور پھر مقامی مسائل اور گردوپیش میں رونما ہونیوالے واقعات اور حالات حاضرہ پر گفتگو کرتے اور باہمی بحث وتکرار سے درپیش مسائل کے حل کے لیے مختلف تجاویز اورمفید آراء کے تبادلے کے مراحل سے بھی گزرتے تھے انکے حالات حاضرہ کے حوالے سے بے لاگ تبصرے اور مختلف تجاویز مفادعامہ کے حوالے سے بڑی کارآمد ہوتیں تھی عید کے تہوار ہوں یا شادی بیاہ کا موسم اب تو سہیلیوں کا ہاتھوں پر مہندی لگانا اور خوشی کے گیت چیڑنے کی رونقیں ماند پڑ چکی ہیں جہاں ان محفلوں میں وہ مل کر تالیوں کی گونج اور ڈھولکی کی تھاپ پر شادی کے گیت گایا کرتی تھیں مگر جدید سائنسی ایجادات کی بدولت وی سی آر کا دور شروع ہوگیا پھر ڈش انٹینا اور کیبل سسٹم متعارف ہوا اب موبائل فون انٹرنیٹ کی جدید ترین ٹیکنالوجی منظرعام پر آگئی ہے جدید دنیا کے لوگ موبائل فون پر گیت ڈرامے اور فلمیں دیکھنے لگ گئے ہر وہ آدمی جس کے پاس موبائل فون ہے وہ سوشل میڈیا کے زریعے دنیا کے دوسرے کونے میں بیٹھے شخص سے رابطے میں ہے مگر پہلے دور کا انسان براہ راست ایک دوسرے سے مخاطب تھا حسب روایت گھریلو مصروفیت میں بالعموم اورگندم کی فصل کی کٹائی اور گہائی کے دنوں میں بالخصوص اجتماعیت اور باہمی اتفاق کا لازوال نظارہ دیکھنے کو ملتا تھا فصل کو ٹھکانے لگانے کے لئے رشتہ دار ہمسائے اور دیگر گاؤں کے لوگ ایک دوسرے کی بڑھ چڑھ کر مدد کیا کرتے تھے ایسے موقعوں پر مہمانوں کی خاطر مدارت میں حلوے کی سوغات کے بڑے چرچے تھے مذہبی امور کی بجا آوری میں پابندی وقت کا خاص خیال رکھا جاتا تھا مسلکی اور تفرقہ بازی سے ہٹ کر اس دور کے لوگ اسلامی اصولوں پر کاربند تھے اور مذہبی احکام کی بجا آوری انکا طرہ امتیاز تھا اپنے بچوں کو قرآنی قاعدہ اور سپارہ پڑھوانے کے لئے اپنے بچے مولوی صاحب اور بچیاں بیوی جی کے پاس باقاعدگی سے جایا کرتی تھیں کسی بھی بچے یا بچی کا قرآن پاک ناظرہ مکمل کرنے پر والدین کیلیے باعث رحمت و اجروثواب خیال جاتا اور اہل محلہ کی جانب سے بڑی خوشی ومسرت کا اظہار اور مبارکبادوں کا تبادلہ کیا جاتا تھا لڑکیاں سر ڈھانپے بغیر بزرگوں کے سامنے آنا گوارہ نہ کرتیں جبکہ لڑکوں کے سر پر سفید ٹوپی خاندانی شرافت کی نشانی سمجھی جاتی تھی شرم وحیا سادگی اور سلیقہ بچیوں کا زیور ہوا کرتا تھا پہلے پہل جوان بچے بوڑھے صوم صلوۃ کے بڑے پابند تھے گھر یا خاندان کا کوئی بزرگ خانگی معاملات کے حوالے سے کوئی فیصلہ صادر فرما دیتا تو من وعن اس فیصلے پر عمل کیا جاتا تھا خاندان برادری کے بڑوں کی رضامندی سے جوڑے گئے خاندانی رشتے خانگی اعتبار سے بڑے پائیدار اور دیرپا ہوتے تھے باہمی تنازعات کی صورت میں ثالثی کا کردار نبھانا اور میرٹ پر باہمی مسائل اور تنازعات کے فیصلے کرنے کا فن وہ بخوبی جانتے تھے اگر گاؤں یا قریب کے رشتہ داروں میں کوئی بیمار ہوجاتا تو دن بھر کی مصروفیت کے باوجود تھکے ہارے رات کو ہاتھوں میں لالٹین اور ڈنڈا یا سوٹہ اٹھائے مریض کی تیمارداری اور اسکی صحت کا حال احوال دریافت کرنے اسکے گھر کی چوکھٹ پر پہنچ جاتے تھے اس دور میں آپس میں رابطوں سے قربتیں زیادہ تھیں جو اب ایک دوسرے سے دور ہونے سے فاصلوں کی طوالت میں بدل گئی ہیں۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں