161

گاؤں کی زندگی میں تغیرات

ساجد محمود
پہلے پہل گاؤں کی زندگی بڑی سادہ تھی لوگ مٹی گارے اور پتھروں کے بنے کچے گھروں میں رہتے تھے طرزِ معاشرت میں سادگی رکھ رکھاؤ خلوص نیت اور ہمدردی کے اوصاف نمایاں تھے غمی خوشی سب کی سانجھی تھی لوگ کم آمدن میں خوش وخرم زندگی گزارتے تھے کام کاج اور مشکل گھڑی میں ایک دوسرے کا ہاتھ بٹانے میں بڑی خوشی محسوس کرتے تھے جب کوئی مہمان گھر آتا تو چہروں

پر خوشی چھا جاتی تھی اپریل کا مہینہ موسم بہار کی نوید لے کر آتا ہے اس مہینے میں سکھ برادری اپنا مشہور بیساکھی کا تہوار مناتی ہے اس کے اختتام پر پنجاب میں گندم کی فصل کی کٹائی کا آغاز ہو جاتا ہے خطہ پوٹھوہار میں بھی گندم کی فصل کی کٹائی زوروشور سے جاری ہے ہر گھر کے بزرگ مرد عورتیں جوان فصل سمیٹنے میں مصروف ہیں اور بعض کسان فصل کی کٹائی کیلئے مزدوروں کا سہارا لیتے ہیں تاہم حالیہ بارش سے کسان خاصے پریشان ہیں موجودہ دور میں جدید آلات کی ایجاد سے کسان کو قبل از وقت موسم کا حال جاننے میں دقت پیش نہیں آتی پہلے دور میں گاؤں کے بزرگ ہوا کا رخ دیکھ کر موسم کی پیشنگوئی کرتے تھے جب فصل تیار ہو جاتی ہے تو کسان اپنی تیار فصل اور لہلہاتے کھیتوں کو دیکھ کر بڑی خوشی محسوس کرتے ہیں پہلے پہل فصل کی کٹائی کے موقعہ پر بڑا جوش و خروش پایا جاتا تھا رشتہ دار اور دوست احباب ایک دوسرے کی مدد کو پہنچ جاتے تھے کٹائی میں وقفے کے دوران چائے بسکٹ رس وغیرہ سے انکی خاطر تواضع کی جاتی تھی کٹائی مکمل ہونے پر بھی انکے لیے خاص کھانوں کا اہتمام کیا جاتا تھا جس سے پیار محبت اور ہمدردی کے جذبات دیکھنے کو ملتے تھے اب تو مشینوں کے زریعے یہ سب کام سر انجام پاتے ہیں فصل کو ایک جگہ اگھٹا کرنے کی غرض سے بزرگ اور گھر کی عورتیں گندم کے گھٹے باندھ کر اپنے سر پر اٹھا کر لاتے تھے اور بزرگ اپنے ہاتھوں سے گندم کے بکھرے سٹوں کو سمیٹ لیتے تھے جس سے رزق میں بڑی برکت تھی تاہم اب ٹریکٹر ٹرالی کی سہولت میسر ہے فصل کی گہائی کے موقعہ پر بھی ایک جشن کا سماں ہوتا تھا فصل کی گہائی کے موقعہ پر بچے بھی اسکول کے ماسٹر صاحب سے چھٹی لے آتے تھے اور گھر کے چھوٹے موٹے کام کاج جیسے بڑوں کو پانی اور چائے فراہم کرنا اور دوکان سے سگریٹ وغیرہ لے آنا انکی ڈیوٹی میں شامل تھا ان کاموں کی تکمیل پر بزرگ بچوں کو شاباش بھی دیتے تھے فصل کی گہائی مکمل ہونے پر مہمانوں کی حلوے سے خاطر تواضع کی جاتی تھی اور برکت یعنی فصل ٹھکانے لگنے کی خوشی میں کسان ایک دوسرے کو مبارکباد دیا کرتے تھے موجودہ دور میں یہ سب کام جدید مشینری اور مزدورں نے اپنے ذمے لے لیے ہیں گو عصرِ حاضر میں انسان کو زندگی کی تمام آسائشیں میسر ہیں تاہم آج کا انسان زہنی سکون سچے اور ہمدرد رشتوں سے محروم ہے روپے پیسے کی ریل پیل ہے مگر پھر بھی تازہ ہوا خالص خوراک اور گھروں میں غموں کا بسیرا ہے صحت اور تندرستی کا نام ونشان نہیں جان لیوا بیماریوں نے آ گھیرا ہے خونی رشتوں کو دور اجنبیوں کو قریب لانے کا سلسلہ جاری ہے رشتوں کا تقدس پامال بڑوں بزرگوں کا لحاظ اور احترام کے جذبات ماند پڑ گئے ہیں پہلے دور میں لوگ غریب تھے مگر دل بادشاہ تھے سادہ خوراک تھی پھر بھی تندرست اور توانا تھے مہمانوں کی بڑی آو بھگت کرتے تھے دکھ درد بانٹتے روٹھ جانے والوں کی راہ تکتے تھے جسکی بنا پر غم ان سے دور بھاگتے تھے مٹی گارے کے بنے کچے گھروں میں رہتے تھے لیکن پھر بھی خوشیوں کا بسیرا تھا فرق صرف یہ ہے کہ پہلے لوگ رزق حلال کماتے تھے جس سے اولادیں فرنبردار تھیں دین سے سچا لگاو تھا جس سے گھروں میں برکت تھی نیتوں میں خلوص تھا جس سے رشتوں کا پاس تھا مگر آج کا انسان خود غرضی اور لالچ میں مبتلا ہے تمام ضروریات زندگی کی آسائشیں میسر ہونے کے باوجود دکھ بیماری اور پریشانی میں مبتلا ہے آج کا انسان زہنی سکون سے دور اور سچے ہمدرد رشتوں سے محروم ہے۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں