ماہ ذوالحجۃ شروع ہونے والا ہے جس میں اسلام کے دو عظیم شعائر کو ادا کیا جاتا ہے ایک حج اور دوسرا قربانی حج بیت اللہ کی سعادت تو خوش نصیبوں کو حاصل ہوتی ہے البتہ قربانی کی سعادت اکثر اہل ایمان حاصل کرتے ہیں دور جدید میں جہاں تعلیم زیادہ ہو رہی ہے وہیں جدت سے مرعوب ہو کر اسلامی احکام پر بلا وجہ اور بے تکے اعتراض وارد کر کے کورے ذہنوں کو پرا گندا کیا جاتا ہے ان اعتراضات میں سے قربانی سر فہرست ہے ان اعتراضات کے جواب کے حوالے سے انڈیا کے ایک عالم مولانا محمد فیض رضا رضوی کا کالم انڈین اخبار صحافت میں شائع ہوا افادہ عام کے لیے اس کو آپ کے حضور پیش کرتا ہوں تاکہ اگر کسی ذہین میں وہ خیالات جنم لے رہے ہیں تو ان کا خاتمہ ہو سکے وہ لکھتے ہیں معترضین کے اعتراضات کے جوابات سے پہلے امت مسلمہ کے لئے یہ پیغام ہے کہ اللہ تعالی نے جس چیز کو جس طریقے سے ادا کرنے کا حکم دیا ہے ہم پر ویسے ہی ادا کرنا لازم ہے ہم مسلمانوں کو سوچنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اسلام میں کچھ ایسی باتیں ہیں جن کی حکمت کو عقل انسانی اچھے سے سمجھ سکتی ہے اور کچھ ایسی ہیں جن کی حکمت سے انسان کافی دور ہے ایک مثال کے ذریعے سمجھتے ہیں کہ ہم پاخانہ یا پیشاب سبیلین سے کرتے ہیں اور محدث (ناپاک) ہوتے ہیں لیکن وضو میں اعضا اربع میں سے تین کو دھوتے ہیں اور ایک کا مسح کرتے ہیں تو جان لیتے ہیں کہ پہلے محدث تھے اور اب باوضو ہو گے ہیں مقام غور یہ ہے کہ انسان ان محدث سبیلین سے ہوتا ہے اور وضو میں اعضا اربع خاص ہیں اس کی حکمت کیا ہے اس کی حکمت ایسی ہے کہ عقل انسانی اس کو سمجھ ہی نہیں سکتی اس لیے بتایا جاتا ہے کہ اسلام کی کچھ باتوں کی حکمت صرف اللہ رب العزت ہی جانتا ہے اب آتے ہیں ان کے اعتراضات کی طرف ان کا سب سے پہلا اعتراض یہ ہے کہ قربانی سے حیوان کی نسل کشی ہوتی ہے جس کی کوئی حقیقت ہی نہیں ہے بلکہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ جن چیزوں کو آپ کثرت سے استعمال کرتے ہیں اس میں اللہ تعالی زیادہ برکت عطا فرماتا ہے آپ کو ایک مثال کے ذریعے سمجھاناچاہتا ہوں کہ جن چیزوں کا استعمال کم ہوجاتا ہے وہ اشیاء بہت کم پائی جاتی ہیں جیسے پرانے زمانے میں زراعت کا کام بیلوں سے لیاجاتا تھا تو ہر گھر میں پائے جاتے تھے مگر عصر حاضر میں ماڈرن سائنس کا بول بالا ہے جس کے سبب لوگ کھیتی باڑی ٹریکٹر سے کرتے ہیں تو کیا اب بھی بیل اتنی ہی تعداد میں پائے جاتے ہیں جتنی تعداد میں پہلے پائے جاتے تھے تو خود بخود ہر شخص کے منہ سے آواز آئیگی نہیں اب تو بمشکل کسی کسی گھر میں بیل کا وجود ملتا ہے اس بات کو بھی ثابت کر دینا مناسب ہو گا کہ جن چیزوں کا استعمال کثیر تعداد میں کیا جاتا ہے اس میں برکت ہوتی ہے اپنے ماحول کا جائزہ لیں تو معلوم ہو گا کہ کتیا سال میں دو بار بچے دیتی ہے اور ایک ساتھ کم از کم چار پانچ سے زائد ہی دیتی ہے آپ ہی بتا دیں کہ کتے کتنے پائے جاتے ہیں اس کے مدمقابل بکری کی بات کی جائے تو وہ ایک سے تین بچے دیتی ہے لیکن جائزہ لینے کے بعد معلوم ہو گا کہ ہر گھر میں کئی بکریاں موجود ہوتی ہیں اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ جو چیز کم استعمال کی جاتی ہیں وہ زیادہ نہیں پائی جاتی اور جو زیادہ استعمال کی جاتی ہیں وہ کثیر تعداد میں پائی جاتی ہے کسی بھی شخص نے یہ بات نہیں سنی ہوگی کہ کہیں قربانی کے جانور کم ہو گے ہیں مہنگا یا سستا ہونا الگ بات ہے جہاں تک بات ہے ان کے دوسرے اعتراض کی تو اس کا سیدھا سا جواب ہے کہ دنیا کی بقا کے لیے کچھ نظام قائم ہے جسے درہم برہم نہ ہونے کے لئے لیے اللہ تعالی
نے انسانوں کے لیے مرنے کا نظام قائم کیا ہے اگر کسی شخص کو یہ معلوم ہو جائے کہ اب وہ نہیں مرے گا تو سوچئے وہ انسان کتنا فساد برپا کرے گا اسی طرح ان کا اعتراض ہے کہ جانوروں میں جان پائی جاتی ہے لہذا ان پر رحم کیا جانا چاہیے اسی جان کی بقا کے لیے ہم انہیں ہرے بھرے کھیتوں کھلیانوں جنگلوں میں چھوڑ دیتے ہیں یا چارہ کاٹ کر ڈالتے ہیں مقام غور یہ ہے کہ اگر جانورں میں جان ہے تو کیا گھاس میں جان نہیں ہوتی اس پر رحم کیوں نہیں کیا جاتا اس لیے کہا گیا ہے کہ جن جانوروں کی بقا کی خاطر گھاس کو کاٹا جاتا ہے اسی طرح انسانوں کی بقاء کی خاطر جانوروں کی قربانی دی جاتی ہے جس سے انسان گوشت کی شکل میں غذا حاصل کرتے ہیں اور یہ بات تسلیم شدہ ہے کہ ایک نہ ایک دن سب کو مرنا ہے چاہے انسان ہو یا حیوان تو اگر ہم اس کو حلال کرکے غذا حاصل کرتے ہیں تو اس میں نقصان کیا ہے ہاں یہ تو پھر عرض کریں گے کہ جانوروں کے مرنے کے لیے ایک وقت معین ہے تو آپ کون ہوتے ہیں ان کو ذبح کرنے والے تو ایسے شخص سے یہی کہا جائے گا اس کے مرنے کا وقت تھا اس نے اسی بہانے مرنا تھا اور جہاں تک اعتراض ہے کہ قربانی کے پیسے غریب غربا میں تقسیم کر دیا جائے تو کتنا اچھا ہوگا یہی کہا جائے گا کہ اس کے لیے آپ کو فکر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں کیونکہ اسلام نے اپنے ماننے والوں کو پہلے ہی ایک مزین طریقہ کہہ دیا ہے کہ گوشت کو تین حصوں میں تقسیم کیا جائیایک حصہ غریب غربا کے لیے اور دوسرا حصہ اپنے عزیز و اقارب کے لیے اور تیسرا حصہ اپنے اہل خانہ کے لیے رکھا ہے اس نظام کے ذریعے سب غرباء مساکین کو غذا مہیا کی جاتی ہے جو اپنی غربت کے باعث گوشت کھانے کی استطاعت نہیں رکھتے وہ بھی اس قربانی کے باعث اس سے لطف اندوز ھو جاتے ہیں دوسری بات اسلام نے غرباء و مساکین کے لیے زکوٰۃ صدقات عشر کا نظام بھی قائم کیا ہے جس سے ان کی مدد کی جاتی ہے لہذا ایسے لوگوں سے ایک اپیل ہے کہ اسلام کی حکمتوں کو دل و دماغ سے سمجھیے بلا وجہ اعتراض نقصان کا باعث ہیں۔
205