columns 205

کیا قربانی جانورں کے خاتمے کا باعث ہے

ماہ ذوالحجۃ شروع ہونے والا ہے جس میں اسلام کے دو عظیم شعائر کو ادا کیا جاتا ہے ایک حج اور دوسرا قربانی حج بیت اللہ کی سعادت تو خوش نصیبوں کو حاصل ہوتی ہے البتہ قربانی کی سعادت اکثر اہل ایمان حاصل کرتے ہیں دور جدید میں جہاں تعلیم زیادہ ہو رہی ہے وہیں جدت سے مرعوب ہو کر اسلامی احکام پر بلا وجہ اور بے تکے اعتراض وارد کر کے کورے ذہنوں کو پرا گندا کیا جاتا ہے ان اعتراضات میں سے قربانی سر فہرست ہے ان اعتراضات کے جواب کے حوالے سے انڈیا کے ایک عالم مولانا محمد فیض رضا رضوی کا کالم انڈین اخبار صحافت میں شائع ہوا افادہ عام کے لیے اس کو آپ کے حضور پیش کرتا ہوں تاکہ اگر کسی ذہین میں وہ خیالات جنم لے رہے ہیں تو ان کا خاتمہ ہو سکے وہ لکھتے ہیں معترضین کے اعتراضات کے جوابات سے پہلے امت مسلمہ کے لئے یہ پیغام ہے کہ اللہ تعالی نے جس چیز کو جس طریقے سے ادا کرنے کا حکم دیا ہے ہم پر ویسے ہی ادا کرنا لازم ہے ہم مسلمانوں کو سوچنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اسلام میں کچھ ایسی باتیں ہیں جن کی حکمت کو عقل انسانی اچھے سے سمجھ سکتی ہے اور کچھ ایسی ہیں جن کی حکمت سے انسان کافی دور ہے ایک مثال کے ذریعے سمجھتے ہیں کہ ہم پاخانہ یا پیشاب سبیلین سے کرتے ہیں اور محدث (ناپاک) ہوتے ہیں لیکن وضو میں اعضا اربع میں سے تین کو دھوتے ہیں اور ایک کا مسح کرتے ہیں تو جان لیتے ہیں کہ پہلے محدث تھے اور اب باوضو ہو گے ہیں مقام غور یہ ہے کہ انسان ان محدث سبیلین سے ہوتا ہے اور وضو میں اعضا اربع خاص ہیں اس کی حکمت کیا ہے اس کی حکمت ایسی ہے کہ عقل انسانی اس کو سمجھ ہی نہیں سکتی اس لیے بتایا جاتا ہے کہ اسلام کی کچھ باتوں کی حکمت صرف اللہ رب العزت ہی جانتا ہے اب آتے ہیں ان کے اعتراضات کی طرف ان کا سب سے پہلا اعتراض یہ ہے کہ قربانی سے حیوان کی نسل کشی ہوتی ہے جس کی کوئی حقیقت ہی نہیں ہے بلکہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ جن چیزوں کو آپ کثرت سے استعمال کرتے ہیں اس میں اللہ تعالی زیادہ برکت عطا فرماتا ہے آپ کو ایک مثال کے ذریعے سمجھاناچاہتا ہوں کہ جن چیزوں کا استعمال کم ہوجاتا ہے وہ اشیاء بہت کم پائی جاتی ہیں جیسے پرانے زمانے میں زراعت کا کام بیلوں سے لیاجاتا تھا تو ہر گھر میں پائے جاتے تھے مگر عصر حاضر میں ماڈرن سائنس کا بول بالا ہے جس کے سبب لوگ کھیتی باڑی ٹریکٹر سے کرتے ہیں تو کیا اب بھی بیل اتنی ہی تعداد میں پائے جاتے ہیں جتنی تعداد میں پہلے پائے جاتے تھے تو خود بخود ہر شخص کے منہ سے آواز آئیگی نہیں اب تو بمشکل کسی کسی گھر میں بیل کا وجود ملتا ہے اس بات کو بھی ثابت کر دینا مناسب ہو گا کہ جن چیزوں کا استعمال کثیر تعداد میں کیا جاتا ہے اس میں برکت ہوتی ہے اپنے ماحول کا جائزہ لیں تو معلوم ہو گا کہ کتیا سال میں دو بار بچے دیتی ہے اور ایک ساتھ کم از کم چار پانچ سے زائد ہی دیتی ہے آپ ہی بتا دیں کہ کتے کتنے پائے جاتے ہیں اس کے مدمقابل بکری کی بات کی جائے تو وہ ایک سے تین بچے دیتی ہے لیکن جائزہ لینے کے بعد معلوم ہو گا کہ ہر گھر میں کئی بکریاں موجود ہوتی ہیں اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ جو چیز کم استعمال کی جاتی ہیں وہ زیادہ نہیں پائی جاتی اور جو زیادہ استعمال کی جاتی ہیں وہ کثیر تعداد میں پائی جاتی ہے کسی بھی شخص نے یہ بات نہیں سنی ہوگی کہ کہیں قربانی کے جانور کم ہو گے ہیں مہنگا یا سستا ہونا الگ بات ہے جہاں تک بات ہے ان کے دوسرے اعتراض کی تو اس کا سیدھا سا جواب ہے کہ دنیا کی بقا کے لیے کچھ نظام قائم ہے جسے درہم برہم نہ ہونے کے لئے لیے اللہ تعالی
نے انسانوں کے لیے مرنے کا نظام قائم کیا ہے اگر کسی شخص کو یہ معلوم ہو جائے کہ اب وہ نہیں مرے گا تو سوچئے وہ انسان کتنا فساد برپا کرے گا اسی طرح ان کا اعتراض ہے کہ جانوروں میں جان پائی جاتی ہے لہذا ان پر رحم کیا جانا چاہیے اسی جان کی بقا کے لیے ہم انہیں ہرے بھرے کھیتوں کھلیانوں جنگلوں میں چھوڑ دیتے ہیں یا چارہ کاٹ کر ڈالتے ہیں مقام غور یہ ہے کہ اگر جانورں میں جان ہے تو کیا گھاس میں جان نہیں ہوتی اس پر رحم کیوں نہیں کیا جاتا اس لیے کہا گیا ہے کہ جن جانوروں کی بقا کی خاطر گھاس کو کاٹا جاتا ہے اسی طرح انسانوں کی بقاء کی خاطر جانوروں کی قربانی دی جاتی ہے جس سے انسان گوشت کی شکل میں غذا حاصل کرتے ہیں اور یہ بات تسلیم شدہ ہے کہ ایک نہ ایک دن سب کو مرنا ہے چاہے انسان ہو یا حیوان تو اگر ہم اس کو حلال کرکے غذا حاصل کرتے ہیں تو اس میں نقصان کیا ہے ہاں یہ تو پھر عرض کریں گے کہ جانوروں کے مرنے کے لیے ایک وقت معین ہے تو آپ کون ہوتے ہیں ان کو ذبح کرنے والے تو ایسے شخص سے یہی کہا جائے گا اس کے مرنے کا وقت تھا اس نے اسی بہانے مرنا تھا اور جہاں تک اعتراض ہے کہ قربانی کے پیسے غریب غربا میں تقسیم کر دیا جائے تو کتنا اچھا ہوگا یہی کہا جائے گا کہ اس کے لیے آپ کو فکر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں کیونکہ اسلام نے اپنے ماننے والوں کو پہلے ہی ایک مزین طریقہ کہہ دیا ہے کہ گوشت کو تین حصوں میں تقسیم کیا جائیایک حصہ غریب غربا کے لیے اور دوسرا حصہ اپنے عزیز و اقارب کے لیے اور تیسرا حصہ اپنے اہل خانہ کے لیے رکھا ہے اس نظام کے ذریعے سب غرباء مساکین کو غذا مہیا کی جاتی ہے جو اپنی غربت کے باعث گوشت کھانے کی استطاعت نہیں رکھتے وہ بھی اس قربانی کے باعث اس سے لطف اندوز ھو جاتے ہیں دوسری بات اسلام نے غرباء و مساکین کے لیے زکوٰۃ صدقات عشر کا نظام بھی قائم کیا ہے جس سے ان کی مدد کی جاتی ہے لہذا ایسے لوگوں سے ایک اپیل ہے کہ اسلام کی حکمتوں کو دل و دماغ سے سمجھیے بلا وجہ اعتراض نقصان کا باعث ہیں۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں