سانحہ مری پر ہر آنکھ اشک بار ہے اور متاثرہ خاندانوں سے اظہار ہمدردی کررہی ہے مگر سمجھ نہیں آتی کہ موجودہ حکومت ملک کو کہاں لے کر جا رہی ہے مہنگائی کنٹرول ہو رہی ہے اور نہ حکومت کا کوئی ایجنڈا ہے مری حادثے پر چند افسران کو معطل کر کے حکومت اپنی غفلت اور نالائقی کو چھپا نہیں سکتی بیورو کریسی کہتی ہے جتنا مزا نوکری میں اس حکومت میں آیا ہے اس سے پہلے کبھی نہیں آیا خیر مری میں ایک لاکھ سے زائد گاڑیاں موجود تھیں ہوٹل والے ایک رات کا پچاس ہزار سے ایک لاکھ لے رہے تھے انڈہ 500 کا فروخت ہو رہا تھا اس کو کس نے ٹھیک کرنا ہے حکومت کی رٹ نہ ہونے کے برابر ہے وہ تو مری ہے کہوٹہ‘کلر سیداں کہیں بھی دیکھ لیں ناجائز منافع خوری‘ ذخیرہ اندوزی‘ ملاوٹ شدہ دودھ دہی اور دیگر اشیاء خورد و نوش انتظامیہ کی ملی بھگت سے فروخت ہو رہی ہیں کرپشن کی انتہا ہو چکی ہے ایم سی کرپشن کا گڑھ بن چکی ہے شہر میں تجاوزات کی بھرمار ہے خیر یہ چیزیں تو درست ہونا مشکل ہیں کیونکہ کہوٹہ کے عوام جب تک اپنے حقوق کے لئے خود نہیں نکلیں گے اس وقت تک منتخب نمائندے اور مقامی قیادت ان کو لالی پاپ دیتی رہے گی گزشتہ حکومتی نمائندوں نے تو اس حلقے میں کوئی میگا پراجیکٹ نہ دیا مگر موجودہ ایم این اے صداقت علی عباسی اور ایم پی اے راجہ صغیر نے چار سال گزار دئیے مگر میں نہیں سمجھتا کہ انہوں نے کوئی ایک بھی وعدہ پورا کیا ہو جس سے اس علاقے کی عوام کا اجتماعی فائدہ ہوا ہو سہالہ اور ہیڈ برج‘ ٹی ایچ کیو‘ واٹر سپلائی‘ یونیورسٹی‘ شہر کی کھنڈر سڑکیں‘ تین ہزار نگہبانوں کا وعدہ‘ سٹریٹ لائٹس‘ ٹورازم ہائی وے دیکھ لیں کہاں تک سنو گے کہاں تک سناؤں بہرحال بات ہو رہی تھی مری کی سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے اعلان کیا تھا کہ کوہسار ضلع بناؤں گا یونیورسٹی بناؤں گا اورہیڈ برج بناؤں گا خیر وہ ایک سال کے قریب عرصہ لگا کر چلے گئے مگر اپنے حلقے کو کچھ نہ دے سکے کتنا عرصہ ان کے پاس وزارت پیٹرولیم و گیس رہی مگر چند اپنے خاص آدمیوں کے انہوں نے نہ کسی کو ملازمت دی اور نہ ہی کوئی میگا پراجیکٹ دیا اب مری حادثے کے بعد ایک بار پھر مری کو ضلع بنانے کا اعلان ہوا بلکہ وزیر اعلیٰ پنجاب نے ایڈیشنل کمشنر اور دیگر افسران کی تعیناتی کا بھی اعلان کیا مری کو ضلع بنانے کی خبر نے کہوٹہ اور کلر کے عوام میں ہلچل مچا دی اور فوری طور پر سیاسی سماجی اور علاقے کی مقدر شخصیات نے آواز بلند کی اور کہا کہ یہ کون سا انصاف ہے کہ ضلع راولپنڈی کی سب سے بڑی اور پرانی تحصیل کہوٹہ جس کو کاٹ کر پہلے کلر سیداں اور پھر کوٹلی ستیاں کو تحصیل بنایا گیا پھر آج ان تحصیلوں نے ترقی کر کے اپنی ماں تحصیل کہوٹہ کو پیچھے چھوڑ دیا اگر ضلع بنانا ہے تو اس کا ہیڈ کوارٹر اس پرانی اور پسماندہ تحصیل کہوٹہ میں ہونا چاہیے تاکہ اس کی 74 سالہ محرومیوں کا ازالہ ہو سکے اگر ضلعی ہیڈ کوارٹر مری کو ہی رکھتا ہے تو کہوٹہ کلر سیداں کے عوام کو ضلع راولپنڈی کے ساتھ ہی رکھا جائے تاکہ سالگراں لہری کروٹ دیگر دور دراز کے علاقوں کے عوام کو ریلیف ملے سابق چیئرمین یوسی ہوتھلہ امیدوار تحصیل ناظم راجہ عامر مظہر، فرزند کہوٹہ راجہ طارق عظیم، ملک عبدالروف، جماعت اسلامی مبشر ستی اور دیگر نے اس حوالے سے پریس کلب کہوٹہ (رجسٹر) میں ایک پروگرام میں خوبصورت گفتگو کی اور جہاں پر صدر پریس کلب کہوٹہ راجہ عمران ضمیر،جنرل سیکرٹری اصغر حسین کیانی اور دیگر نے کہوٹہ کے مسائل اور منتخب نمائندوں کی کارکردگی کے حوالے سے گفتگو کی وہاں پر راجہ عامر مظہر اور دیگر قائدین نے اس بات پر زور دیا ٹورازم ہائی وے کا روٹ تبدیل کر کے اس کو کہوٹہ شہر کی لاکھوں کی آبادی کے مفاد میں تبدیلی کی جائے یہ ڈیفنس کے آر ایل اور پورا کشمیر اور آزاد پتن اور کروٹ ڈیم کی تمام ہیوی ٹریفک انہی سڑکوں سے گزرتی ہے نتھوٹ سے نئی کچہری تک بائی پاس اور کہوٹہ شہر کا ک پل سے لے کر کہوٹہ‘ پنجاڑ تا نڑھ روڈ کو تعمیر کیا جائے انہوں نے کہا کہ روات سے بیور تک بھی اگر سڑک تعمیر ہوتی ہے تو ہمیں خوشی ہو گی مگر عوامی مفاد کو مدنظر رکھتے ہوئے فیصلے کیے جائیں اور کہوٹہ کلر کو پنڈی ضلع کے ساتھ رکھا جائے جب پریشر بڑھا تو مجبوراً ایم این اے اور ایم پی اے کو بھی یہ اعلان کرنا پڑا کہ کہوٹہ کلر کو مری کے ساتھ شامل نہیں کریں گے اب دیکھیں کہ تحصیل کہوٹہ کے ساتھ کیا سلوک ہوتا ہے کہوٹہ کے مسائل کے حوالے سے پہلے کئیں کیپٹن(ر) روف اور دیگر کی قیادت میں عوام علاقہ نے احتجاج کیا جبکہ کہوٹین یوتھ کی طرف سے ایک پر امن احتجاجی ریلی نکال کر منتخب نمائندوں کو پیغام دیا گیا کہ اگر آپ نے عوام سے وعدے کر کے ان کو حقوق نہ دیے تو عوام حقوق چھین کر لیں گے احتجاجی ریلی میں عوام کو کافی پذیرائی ملی اور انتظامیہ کی طرف سے لاؤڈاسپیکر کے استعمال پر مقدمہ درج کرنے کی دھمکی بھی دلائی گئی گو کہ انتظامیہ کو سیاسی قیادت نے کہا ہو گا بہرحال کہوٹین یوتھ کی طرف سے جو ریلی نکالی گئی اس سے منتخب نمائندوں کی آنکھیں کھل جانی چاہئیں پی ٹی آئی کے نظریاتی ورکر اور کارکن عہدیدران جو کہ ایم این اے صداقت علی عباسی اور اپم پی اے راجہ صغیر احمد کی ناقص کارکردگی سے مایوس تھے انہوں نے بھی اس احتجاج میں شامل ہونا تھا مگر تنظیموں کے ساتھ ایم این اے صداقت علی عباسی کے درمیان صلح ہو گئی تھی جس وجہ سے تھوڑی خاموشی ہو گئی ہے سابق تحصیل صدر راجہ خورشید ستی نے گو کہ پارٹی کی خاطر تھوڑی لچک دکھائی ہے مگر عوام کے حقوق اور نظریاتی ورکروں کے لیے جو انہوں نے آواز بلند کی تھی اور عوام کے اندر ان کا جو ایک مقام قائم ہوا تھا اس راضی نامہ سے انکو دھچکا لگے گا
105