پاکستان جو کہ کلمے کے نام پر قائم ہوا تھا اور انشاء اللہ قیامت تک قائم رہے گا پاکستان ایک ایٹمی قوت ہے اور اسلامی ممالک کی نمائندگی کرتے ہوئے بلاک بنا کر دنیا میں ایک عرب سے زائد مسلمانوں کے لیے مشعل راہ بن سکتا ہے مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ سب کچھ ہونے کے باوجود ہم بھکاری بنے ہوئے ہیں ہر آنے والا حکمران گزشتہ حکمرانوں کو الزام دے کر خود بری الزمہ ہو جاتا ہے ہمارے ادارے تباہ ہو چکے ہیں آج پنجاب بلوچستان سندھ آزاد کشمیر اور دیگر علاقوں میں لاکھوں افراد بے گھر ہو گئے ہزاروں لوگ مر گئے فصلیں تباہ ہو گئی لاکھوں مویشی پانی میں بہہ گئے مگر کسی کو خبر نہیں حکمرانوں نے آج تک کوئی منصوبہ بندی نہیں کی اب تو ہم اس قدر بھکاری ہو چکے ہیں کہ ہمیں ناگہانی آفات پر بھی کہیں سے مدد نہیں ملتی پاکستان دیوالیہ ہونے کے قریب ہے مگر حکمران عیاشیاں کرنے میں مصروف زہر کھانے کو پیسے نہیں مگر غریبوں پر بجلی بم پیٹرول بم گرا کر اربوں روپے کے ٹیکس لگا کر اپنے اسمبلی ممبران کی ماہانہ تنخواہ لاکھوں روپے بڑھانے کا بل فوراً پاس ہو جاتا ہے تیس سے چالیس ارب کی مفت بجلی اشرافیہ کو دی جا رہی ہے اربوں روپے کا پیٹرول ڈیزل مفت سرکاری افسران سیاسی نمائند گان کو دیا جا رہا ہے مگر غریب مہنگائی کی چکی میں پس رہے ہیں عوام کی بھی مثال نہیں ملتی سب کچھ پانی میں بہا کر بھی انہی لوگوں کے جلسوں میں دھڑا دھڑ جاتے ہیں جن کو ان کی خبر ہی نہیں خیر ان ساری باتوں کو چھوڑ دیں وقت کا تقاضہ ہے کہ پاکستان میں ایک صاف شفاف قیادت کرنے کے لیے کرنے کے لیے ذاتی مفاد برادری ازم کو ختم کر کے صرف اللہ کی رضا کے لیے ایسے لوگوں کا انتخاب کیا جائے جو دیانتدار ہوں اور اپنے لیے نہیں بلکہ پاکستان کے لیے درد رکھتے ہوں اس وقت ہمیں بھکاری بننے کے بجائے ایک ساتھ کھڑا ہونا ہو گا آج سیلاب زدگان کے درمیان کھڑے ہو کر ان کی آباد کاری کے لیے کچھ کرنا ہو گا سیلاب نے جہاں آدھے پاکستان کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے وہاں حلقہ پی پی سیون تحصیل کہوٹہ بھی شدید متاثر ہوئی ہے کئی لوگوں کے مکان گر گئے کئی لوگوں کے مویشی تباہ ہو گئے سڑکیں پانی میں بہہ گئیں کیوں کہ ہمارے ملک میں کوئی منصوبہ بندی نہیں ہوتی صرف کرپشن کے ذریعے مال بنایا جاتا ہے تحصیل کہوٹہ میں جانوروں کی بیماری کی وجہ سے کسانوں کا شدید نقصان ہوا بروقت علاج نہ ہونے کی وجہ سے غریبوں کے لاکھوں کے جانور تباہ ہو گئے بدقسمتی سے نہ ہی آج تک اس علاقے کے منتخب نمائندوں نے مسائل حل کئے اور نہ ہی انتظامیہ نے کبھی کچھ کام کیا بار بار لکھنے کی ضرورت نہیں کیونکہ عوام جانتے ہیں سہالہ اور ہیڈبرج کو تو چھوڑیں کاک پل سے لے کر چکیاں تک سڑک کی حالت دیکھیں گھنٹوں گاڑیاں سہالہ میں پھنسی رہتی ہیں کہوٹہ تک سڑک کھنڈرات کروڑوں روپے کی کرپشن نمائندوں انتظامیہ کو معلوم مگر کچھ نہ کر سکے اسی طرح شہر کی سڑکیں خراب واٹر سپلائی کی حالت دیکھ لیں لوگ پانی کی بوند بوند کو ترس رہے ہیں نمائندوں نے کئی سالوں سے لالی پاپ دیا ہوا ہے کہوٹہ شہر اور گردونواح میں جرائم پیشہ لوگوں نے ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں چوری ڈکیتی کی وارداتوں میں اضافہ ہو رہا ہے منشیات فروشی عروج پر ہے کہوٹہ شہر تو کیا اب تو دیہات اور سکول کالج محفوظ نہیں ہیں منتخب نمائندے سیاسی کھڑ پینچ ان لوگوں کو فراہم کرتے ہیں نوجوان نسل تباہ ہو رہی ہے کہوٹہ میں ٹاوٹ مافیا کا راج ہے تھانہ کہوٹہ میں غریب آدمی کو انصاف ملنا مشکل ہے کہوٹہ شہر اور گردونواح میں مہنگائی کا جن بوتل سے باہر ہر شخص کا اپنا ریٹ قیمتوں میں من مانے اضافے کیمیکل پاؤڈر ملا دودھ روزانہ تین چار بڑے ٹینکر بھر کر رات کے اندھیرے میں لانے جاتے ہیں اور یہاں دکان داروں کو 60 سے 70 روپے کلو دیا جاتا ہے جو آگے 150 سے 170 تک فروخت کرتے ہیں ہر گلی محلے میں دودھ دہی کی دکان کا جال بچھا ہے تحصیل انتظامیہ محکمہ صحت کے اہلکار بھتہ لے کر خاموش تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتال جو کئی کنالوں پر مشتمل ہے مگر وہاں صرف مریضوں کو پنڈی ریفر کیا جاتا ہے اور دوائیاں لینے کے لیے باہر کی پرچی تھما دی جاتی ہے کئی سالوں سے سینکڑوں ائیر کنڈیشنڈ حکومت کی طرف سے مہیا کیے گئے مگر بجلی کی الگ لین نہ ہونے کا بہانہ بنا کر آجطتک وہ نہ لگ سکے اج کے جدید دور میں بھی ڈیجیٹل ایکسرے کی سہولت موجود نہیں ہے لوگوں کو کلر سیداں ہولی فیملی ریفر کیا جاتا ہے اسی طرح سرجن ڈاکٹرز سپیشلسٹ ڈاکٹرز اور محکمے کی کمی کی وجہ سے 24 گھنٹے سروس میسر نہیں ہے شہر میں من مانے ریٹ ہیں روٹی 12 سے 15 نان 20 سے 25 کا فروخت ہو رہا ہے انتظامیہ کی کوئی رٹ نہیں آج تک نہ ریٹ لسٹ آویزاں ہو سکی اور نہ اس پر عمل درآمد ہو سکا عوام کو دنوں ہاتھوں سے لوٹا جو رہا ہے جبکہ بجلی کے بلوں نے عوام کو چکرا کر رکھ دیا ہے جسکا 600 بل آتا تھا اس کا 15 سے 20 ہزار آیا ہے جبکہ جگہ جگہ گندگی کے ڈھیر لگے ہیں صفائی کے ناقص انتظامات کی وجہ سے ڈینگی اور دیگر موزی امراض پھیلنے لگے کہوٹہ کلب اور شہر کے دیگر منصوبے کرپشن کی نظر ہو گئے جنگلات کا بے دریغ کٹائی آگ لگا کر نقصان پہنچایا جا رہا ہے سیاسی رسہ کشی نے عوام کو ہجرت کرنے پر مجبور کر دیا ہے نوجوان ڈگریاں اٹھائے روزگار کی تلاش میں دھکے کھا رہے ہیں جگہ جگہ غیر قانونی کلینکس کی بھرمار ہے پرائیویٹ ہسپتالوں میں لوٹ مار کا بازار گرم ہے حکومتی نمائندوں انتظامیہ سے اصلاح اموال کا مطالبہ
