80

کہوٹہ میں صحت سہولیات کا فقدان

ضمنی الیکشن کا انعقاد تو نہ ہو سکا مگر اس ضمنی الیکشن کے اعلان سے پارٹیوں کی دھڑے بندی واضح ہو گئی مسلم لیگ ن کے بھی کئی امیدوار کھڑے جبکہ پی ٹی آئی کے بھی کئی لوگوں نے کاغذات داخل کرائے مگر آخری وقت میں غلام مرتضی ستی نے پارٹی ہدایت پر کاغذات واپس لے لیے بہرحال دونوں دھڑوں نے الیکشن مہم جاری رکھی اور ایک دوسرے پر تابڑ توڑ سیاسی حملے کرتے رہے آخر کار سابق چیئر مین یو سی نڑھ اور صداقت علی عباسی کے درمیان کانٹے دار مقابلہ ہونا تھا اگر غلام مرتضیٰ ستی آزاد الیکشن لڑتے تو پھر شاید حلقے کی سیاست میں تھوڑی ہلچل ہوتی بہرحال جو ہوا ہو گیا تحصیل کہوٹہ کے عوام جتنے مرضی الیکشن ہوں وہ مسائل میں جکڑے رہیں گے کیونکہ وہ علاقہ کبھی ترقی نہیں کر سکتا جہاں عوام ووٹ کے ذریعے اپنے نمائندوں کا احتساب نہیں کرتے ذاتی مفادات برادری ازم ضمیر فروشی کی سیاست ختم نہیں ہوتی یہی وجہ ہے کہ آج سب سے بڑی پرانی اور ایٹمی تحصیل کے عواٍم جدید دور میں بھی بنیادی سہولیات سے محروم ہیں صحت تعلیم کی سہولیات ناپید ہیں آج کتنے سال ہو گے نہ کبھی منتخب نمائندوں نے کھلی کچہری لگا کر عوام کے مسائل سنے اور نہ ہی کمشنر یا دیگر اداروں کے سربراہان نے زحمت کی تحصیل کہوٹہ جس میں راجہ صغیر احمد نے کہا تھا کہ میں پی ٹی آئی میں صرف اس لیے شامل ہوا تھا کہ کہوٹہ کو یونیورسٹی لانؤنگا پی ٹی آئی میں چار سال گزرنے کے بعد وہ مسلم لیگ ن میں بھی چلے گے مگر یونیورسٹی تو کیا کالج بھی نہ بنا سکے کیمپسز کے نعرے لگے وہ بھی ٹھپ ہو گے کئی کنالوں پر مشتمل ٹی ایچ کیو ہسپتال جسکو باہر سے تو5کروڑ کے قریب روپے کی ٹائلیں مرمتی کر کے تیار کیا جا رہا ہے مگر اندر مریضوں کو دوائی تک میسر نہ ہے ٹراما سنٹر کروٹ ڈیم والوں نے بنایا جبکہ مدر چائلڈ سنٹر چئیر مین آر ڈی اے راجہ طارق محمود مرتضیٰ نے بنایا تھا اور8کروڑ جو محکمہ کے فنڈز ہیں اُن سے بلڈنگ کی تعمیر کی جا رہی ہے مگر ان چیزوں کا کیا فائدہ کہ جہاں سٹیٹ آف دی آرٹ ہسپتال تو کیا 100بیڈ تو کیا60بیڈ بھی خالی پڑے ہیں فنڈز کی کمی کی وجہ سے مریضوں کو ریفر کر دیا جاتا ہے ہمارے نمائندگان انتظامیہ مقامی قیادت کے لیے باعث شرم ہے کہ اتنے بڑے ہسپتال میں ڈیجیٹل ایکسرے بڑا الٹراساؤنڈ اور جدید لیبارٹری نہیں ہیں فلموں کے ذریعے جو ایکسرے ہوتے ہیں وہ بھی بہت ضروری اسی طرح نامولود بچوں کی نرسری میں بھی سہولیات نہیں ہیں جبکہ 15سو اوپی ڈی میں چار سو بچے ہیں جن میں سے کوئی خوش قسمت مریض ہوگا جسکو دو چار گولیاں ملیں یا بیس پچیس بچے جنکو کوئی بخار یا کھانسی کا سیرپ ملے غریب لوگ باہر سے دوائی الٹراساؤنڈ ڈیجیٹل ایکسرے اور ٹیسٹ پر مجبور ہیں 36ڈیلی ویجز ملازمین جنکو سات ماہ سے تنخواہ نہیں ملی دن رات کام کرنے والی خواتین اور مرد جنکو فیض برادرز کمپنی صرف15ہزار تنخواہ دیتی ہے وہ بھی وقت پر نہیں ملتی اسی طرح تھوہا خالصہ میں سابق ایم پی اے راجہ محمد علی نے دس کروڑ کی لاگت سے جدید ہسپتال تعمیر کیا تھا جو ابھی تک رن نہ ہو سکا نمائندوں نے درجنوں سکولوں کو اپ گریڈ کرنے کا اعلان کیا مگر گراؤنڈ پر کچھ موجود نہیں انتظامیہ کی بے حسی کی انتہا ہے کہوٹہ شہر میں ناجائز منافع خوروں ذخیرہ اندوزوں نے عوام کو لوٹنا شروع کر دیا روزانہ ہزاروں روپے لیکر ریٹ لسٹ تھما دی جاتی ہے مگر عمل در آمد نہیں ہر دوکاندار کا اپنا ریٹ نہ پرائس کنٹرول کمیٹی نہ ہی انتظامیہ کوئی اقدام کرتی ہے نالیوں پر جگہ مچھلی والے بیٹھے ہیں جو مضر صحت یا باسی مچھلی 700سے1000روپے کلو تک فروخت کرتے ہیں سرکاری طور پر ملنے والا آٹا انتہائی ناقص ہے شہر میں باہر سے آکر لوگوں نے قبضہ کیا ہوا ہے ایم سی اہلکاران کی ملی بھگت سے پورے شہر میں رہڑیاں سوزکیاں اور لوڈر رکشے کھڑے کر کے ان پر سامان فروخت کیا جا رہا ہے شہر جو پہلے ہی تنگ تھا یہاں تجاوزات دونوں اطراف گاڑیاں کھڑی کرنے دوکانداروں کو تھڑے کرائے پر دیکر انکو مزید بند کر دیا ہے جبکہ سب سے بڑا مسلہ اس شہر میں کمیکل پوڈر کھاد چونا وغیرہ ملا کر دودھ فروخت کرنے والوں کا ہے کہوٹہ شہر میں روزانہ باہر سے 5سے 6ٹنکیاں دودھ کی رات کے اندھیرے میں آتی ہیں جو پنجاڑ چوک جامع مسجد روڈ مٹور چوک لاری اڈہ اور دیگر علاقوں میں 70روپے کلو کے حساب سے دیتے ہیں اور یہی دودھ دہی دوکاندار 180سے200روپے فروخت کرتے ہیں کئی دوکانوں پر گندے مضر صحت پلاسٹک کے ڈرموں میں یہ دودھ لا کر دیاس جاتا ہے ہر دوسری تیسری دوکان دودھ دہی کی ہے جس میں زیادہ تر باہر کے لوگ ہیں ایک الگ شخص نے تین تین دوکانیں بھی کھولی ہیں کوئی پوچھنے والا نہیں غریب لوگوں کو زہر یلہ اور ملاوٹ شدہ دودھ دہی دیا جا رہا ہے انکو روکا نہ گیا تو طرح طرح کی بیماریاں پھیلنے کا خدشہ ہے کہوٹہ شہر میں امن و امان کی صورت حال انتہائی خراب چوری ڈکیتی کی وارداتیں عام ہو گئی ہیں جبکہ منشیات فروشی کا دھندہ بھی عروج ہے پر چرس پوڈر شراب نہ صرف شہر بلکہ دیہاتی علاقوں تک پھیل گئی سکولوں کالجوں کے بچوں کی بڑی تعداد کو اس پر لگا دیا گیا پورا دن سر عام چرسی پوڈری لاری اڈہ کھوتا سٹیڈئم آڑہ قبرستان اور ادوالہ فاروق کالونی و دیگر علاقوں میں بیٹھے رہتے ہیں جبکہ کتوں کی لڑائی مرغوں بیٹیروں کی لڑائی پر نہ صرف جو لگایا جاتا ہے بلکہ لڑائی جھگڑا معمول بن گیا کئی نوجوان جان سے ما ر دیے گے پتنگ بازی عروج پر ہے اسکو روکنے کی ضرورت تھانہ کہوٹہ میں ٹاؤٹ مافیا کا راج ہے کئی کئی سال گزر گے چوری ڈکیتی کے ملازمن نہ پکڑے گے ادھر رمضان کی آمد سے قبل ہی تاجروں نے چھریاں تیز کر دیں چکن گوشت دالیں چاول سبزی فروٹ کے علاوہ دیگر چیزیں مہنگی ہر سال رمضان سستے بازار کی مد میں لاکھوں روپے فنڈز خرد برد کیے جاتے ہیں مگر صرف سبزی منڈی میں چند پرانی دوکانیں لگا کر کرسیاں میز لگا کر اعلیٰ افسران کی نظروں میں دھول جھونکی جاتی ہے مگر عوام کو ریلیف نہیں ملتا نہ دیا جاتا بہر حال بے پناہ مسائل جنکا حل اب نا ممکن لگتا ہے ہر محکمہ ہر ادارہ ہر نمائندہ سب مفادات کی جنگ میں مصروف جبکہ تک ملک میں اللہ اور اسکے رسول ﷺ کا نظام نافذ نہ ہوگا تب تک بہتری نا ممکن ہے دعا گو ہیں اللہ پاکستان کو ترقی بخشے اور ہمیں اپنا محاسبہ کرنے والا بنائیں تا کہ مخلص ہو کر ملک کی خدمت کر سکیں۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں