کوٹلی ستیاں کے جنگلات میں لگی آگ کا ذمہ دار کون 182

کوٹلی ستیاں کے جنگلات میں لگی آگ کا ذمہ دار کون

اللہ تعالیٰ نے اس زمین کودرختوں کی سرسبزی وشادابی سے مزین کیاہے اورجنگلوں کی ہریالی سے اس کرہ ارض کو حسن و جمال بخشاہے جبکہ رسول کریمﷺنے ماحول کو پاک صاف رکھنے اور فضا کو آلودگی سے محفوظ کرنے کی تعلیم و تلقین کی ہے مگر بدقسمتی سے ہر دور حکومت میں جنگلات کے تحفظ درختوں کی افزائش جنگلات کے رقبہ جات کو قبضہ مافیا سے بچانے یا شر پسند عناصر کی جانب سے لگائی جانے والی آ گ سے بچانے کیلئے کچھ نہیں کیا گیا اور نہ ہی کوئی جا مع پالیسی تشکیل دی گئی بلکہ ٹمبر مافیا اور قبضہ مافیا کی سیاسی وابستگیوں کی بنیاد پرسیاسی پنڈتوں نے پشت پناہی کی جس کی وجہ سے ہمارے جنگلات کا ایک بڑا رقبہ سکڑ گیا اور پہاڑ درختوں سے خالی اور ننگے ہوچکے ہیں محکمہ جنگلات کے راشی آفیسران نے بھاری رشوتوں کے عوض اور ناعاقبت اندیش سیاسی پنڈتوں کی سفارشوں کو اہمیتِ دیکر جنگلات کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا اور پہنچا رہے ہیں چھوٹے کم گریڈ کے ملازمین انتہائی معذرت کیساتھ سبھی نہیں بلکہ کچھ اہلکاروں نے جان بوجھ کر جنگلات کو نا قابل تلافی نقصان پہنچایا اور اپنے آفیسران کی طرح جہاں موقع ملتا ہے جنگلات کی کٹائی میں پیش پیش رہتے ہیں گویا کہ چاروں اطراف سے جنگلات کے مکمل خاتمے کیلئے اس وقت بھی ٹمبر مافیا اور قبضہ مافیاکی صورت میں حملے جاری ہیں رہی سہی کسر جو سب سے زیادہ جنگلات اور جنگلی حیات کیلئے خطرے کا باعث ہے وہ فائر سیزن میں لگنے والی آگ ہے جو پل جھپکنے میں سب کو اپنی لپیٹ میں لے کر خاکستر کر دیتی ہے جس کی بڑی وجہ محکمہ جنگلات کے اہلکاروں کے پاس آ گ بجھانے کے آ لات کا نہ ہونا، کئی ایکٹر کے رقبے پر صرف ایک اہلکار کا تعینات ہونا، آ گ بجانے کے لیے سپیشل فورس کی تعیناتی کے عمل کو کئی سالوں سے روک دینا، ٹرانسپورٹ کا نظام نہ ہونا، پبلک اگاہی مہم نہ ہونے جیسی اہم وجوہات ہیں جبکہ ہر سال بھاری بجٹ بھی فائر سیزن کے لیے کروڑوں روپے مختص کیا جاتا ہے جس سے شائد افسران کی جیبیں ہی گرم ہو تی ہیں جبکہ جنگلات سے آ گ بجھانے کے لیے کو ئی مو ثر پالیسی مرتب نہیں کی جاتی کچھ لوگ محکمہ جنگلات کے ملازمین کو موزوں الزام ٹھہراتے ہیں کہ ملازمین اپنی چوری چھپانے مثلاً جس کمپارٹ یا ایریا سے درخت کٹوائے ہوتے ہیں ان کی باقیات کو ختم کرنے کی غرض سے خود آگ لگاتے ہیں اس الزام کو ملازمین پر تہمت کہا جائے یا حقیقت یہ جاننے کی بھی کبھی کسی نے سنجیدگی کیساتھ کوشش نہیں کی کیو نکہ گرمی کے موسم میں اے سی دفاتر کو خیر آباد کہہ کر بالا آفیسر سرکار ادھر مشکل سفر کی ہمت نہیں کرسکتے تو کیسے جنگلات کا تحفظ ممکن ہو گا دوسری جانب آگ لگانے والے وہ شرپسند عناصر ہیں جو دین کی سوجھ بوجھ سے مطلقاً عاری ہیں محض معمولی فائدے کی خاطر مثلاً جنگل کو آگ لگے گی تو پرانا گھاس اور سمتھر (سمرو) ختم ہوجائیگا اور بارشیں برسیں گی تازہ گھاس اگے گا تو مویشی مزے کریں گے یا پھر وہ لوگ اس میں ملوث ہوتے ہیں جو جنگل کے رقبہ پر کسی نہ کسی طور قابض ہیں یا جنگل کے ملحقہ رقبہ کو مزید توسیع دینے کی بھونڈی سوچ رکھتے ہیں اگر ریاستی قانون کے مطابق ایسے شر پسند عناصر اور توسیع پسندانہ عزائم رکھنے والوں کو سزائیں دی جائیں تو کافی حد تک جنگلات آگ سے بچ سکتے ہیں اس فائر سیزن میں جس بے دردی سے کوٹلی ستیاں کے 70 فیصد جنگلات جو شر پسند عناصر کی کاروائیوں سے آ گ کی نظر ہو گئے اور یقیناً یہ نقصان اگلے دس سالوں بعد بھی پورا نہیں ہوتا میری نظر میں اس کے ذمہ داران حکومت جس نے اگر انگریز دور کی طرح جس طرح فائر سیزن میں فنڈز مختص ہوتے تھے اگر حکومت کی جانب سے اس طرح فنڈز مختص نہیں کیے اور اگر فنڈز مختص ہو نے کے باوجود فیلڈ میں کام کرنے والے ملازمین کو فائر آ لات فراہم نہ کی گئی ہوں، فائر واچر تعینات نہ کیے گئے ہوں ٹرانسپورٹ فراہم نہ کیجاے تو یہی افسران ذمہ دان ہیں اور کیا ان70 فیصد جنگلات کے جلنے کا حساب سپریم کو رٹ کے سو موٹو ایکشن، عدالتی کمیشن یا حکومتی سنجیدگی سے لیا جا سکتا ہے یہ بھی ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔جنگلات کو بچانے کیلئے علمائے کرام کو کلیدی کردار ادا کرنا ہو گا بالخصوص علمائے کرام جامع مساجد میں خطابت وامامت کے فرائض سر انجام دینے کیساتھ وقتاً فوقتاً قرآن وحدیث کی روشنی میں لوگوں کو درختوں کی اہمیتِ وافادیت کو احسن طریقے سے اجاگر کریں کہ کس طرح اللہ تعالیٰ کی تسبیح کرنے والے اس سبز درخت کو ہم کاٹ کر کتنا بڑا گناہ و نقصان کرتے ہیں اور ماحول کو کتنا نقصان پہنچا رہے ہوتے اسی طرح آئمہ کرام مفتیان دین کی طرح سکولز اور کالجز کے اساتذہ کرام بھی طلباء کو درختوں کی اہمیتِ موسم وماحول پر درختوں کی وجہ سے پڑنے والے اثرات سے آگاہ کرتے رہیں تو ہم یقیناً اپنے بزرگوں کے دیے ہوئے اس سر سبز و شاداب پہاڑوں کے تحفے کے اصل آ مین کہلا سکتے ہیں ورنہ ہمیں اس بد دیانتی کا بھی حساب دینا ہو گا ہماری بھی کوشش رہی ہے کہ ہمیشہ اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے اداروں کے ٓفیسرز وملازمین کو الا ماشا ئاللہ کبھی بلاوجہ تنقید کا نشانہ نہیں بنایا بلکہ فرض شناس آفیسرز وملازمین کی ہمیشہ تعریف وتوصیف اور انکی حوصلہ افزائی میں قلم کو جنبش دی ہے اور زبانی کلامی بھی حتی المقدور حقائق کی روشنی میں حوصلہ افزائی کی ہے کیونکہ آفیسرز اور ملازمین بھی ہم سے ہیں ہمارے ملک کا سرمایہ ہیں دعا گوہ ہوں کہ۔ اللہ تعالیٰ عزوجل ہمارے تمام اداروں کے آفیسرز حکومتی زعما سیاسی لیڈران چھوٹے بڑے ملازمین کو حقیقی محب وطن کا حقیقی سرمایہ بننے وطن کے کونے کونے کی حفاظت اس کے حسن کو دوبالا کرنے اس کی نظریاتی و جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت کرنے کی توفیق ارزانی نصیب فرمائے بالخصوص خطہ کو ہسارکو ٹلی ستیاں و مری کو پھر سے سرسبز وشاداب بنانے کی کوشش کرنے کی ہمت و توفیق ارزانی نصیب فرمائے آمین ثم آمین۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں