تحصیل کلر سیداں میں سیاسی لحاظ سے ابھی تک کوئی خاص ہلچل پیدا نہیں ہوئی ہے کیوں کہ عوام لوڈ شیڈنگ مہنگائی کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں اور گزر اوقات بڑی مشکل ہے اور کچھ اس وجہ سے کہ
سابقہ تمام بلدیاتی امیدوار منظر عام سے بالکل غائب ہو چکے ہیں اور دوبارہ جب کبھی بلدیات کے حوالے سے کوئی اعلان ہو ا تو نئے روپ لے کر سامنے آنا شروع ہو جائیں گے اور عوام کو اپنی طرف متوجہ کرنے کی کو شش کریں گے تحصیل کلر سیداں میں سیاست عام طور پر نظریوں سے دور ہے اور تقریباََ برادری عزم پر ہے اور اسی وجہ سے سیاسی نمائندے توجہ دیں یا نہ دیں مگر پارٹی بیس پر ووٹ کسی طرح پڑ ہی جاتا ہے پیپلز پارٹی کلر سیداں8 میں صرف نام کی رہ چکی ہے اور اس وقت کوئی بھی نمائندپیپلز پارٹی کے حوالے سے منظر پر مو جود نہیں ہے اور اگر کوئی ہے بھی تو پردے کے پیچھے اس کی وجہ یہ تھی کہ مذکورہ پارٹی این اے 52 اور پی پی 5 میں کوئی خاص کار کر دگی دکھانے سے عاری رہی اور کا ر کنان پارٹی سے نالاں ہیں جس کا فائدہ بھر پور طریقے سے ن لیگ کو ہوا ہے اسی طرح جب بلدیا تی مہم چلی تو تمام یونین کو نسلز میں امیدوار متحرک نظر آئے
اور خود کو عوامی خادم ظاہر کیا اور بعض امیدواروں نے کئی ایسے کام کر ڈالے جو ان کی استطاعت سے باہر تھے لیکن جو ں ہی التوا نظر آیا تو ایسے دکھائی دیا کہ یہ تمام امیدوار کہیں خواب میں دکھائی دیے تھے صرف مٹھی بھر لوگ میدان میں ابھی تک مو جود ہیں ن میں یونین کو نسل غزن آباد سے کیپٹن محمد فاروق چوہدری فرحت ،گف سے راجہ آفتاب چوہدری زاہد، بشندوٹ سے زبیر کیانی ،راجہ اشفاق جو اب تک عوامی رابطے میں ہیں اسی طرح دیگر یونین کونسلز میں بھی صرف چند امیدوار عوام سے اب بھی رابطہ رکھے ہوئے ہیں اور ہر دکھ درد میں شرکت کو یقینی بناتے ہیں اسی طرح ن لیگ کی حکومت کو بھی ڈیڑ ھ سال کا عرصہ ہوا ہے اور این اے 52 سے دونوں رہنماؤں کا تعلق ن لیگ سے ہے اور ساسی ماحول بھی دونوں کے لیے ایک جیسا تھا جس کی وجہ سے دونوں نمائندوں نے توقع سے بھی زیادہ ووٹ لیے اور چو ہدری نثار علی خان نے کام بھی توقع سے بڑ ھ کر کیے اور مزید بھی ہوں گے اس کے باوجود عوام کی نظریں وزیر داخلہ پر لگی ہوئی ہیں کہ وہ چند محکموں جن میں سر فہرست پولیس اور محکمہ مال ہے کا قبلہ درست کر دیں اور کلر سیداں کے بے شمار دیہات اب بھی گیس کی سہوت سے محروم ہیں باقی رہ جانے والے علاقوں میں بھی گیس کی سہولت فراہم کی جائے
اور خاص طور تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتال پر توجہ دی جائے جہاں پر عوام کو بے شمار مسائل کا سامنا ہے حالانکہ مذکورہ ہسپتال کے لیے دی جانے والی گرانٹس حوصلہ افزاء ہیں مگر علاج معالجہ کا نظام حوصلہ افزا نہیں ہے چوہدری نثار علی خان نے علاقہ بھر میں بلا تفریق ترقیاتی کام کر وائے لیکن ایک کمی ضرور ہے کہ ترقیاتی کاموں کا آڈٹ نہیں ہو رہا ہے جس کی وجہ سے ن لیگ کو تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے میں جس کی صرف ایک مثال دوں گا یونین کونسل غزن آباد کے گاؤں نوتھیہ میں گلیوں کے لیے 5 لاکھ کی گرانٹ جاری ہوئی اور ساری رقم ایک گلی جس کی لمبائی 3 سو فٹ ہے پر اڑادی گئی ہے اور وہ بھی گلی ادھوری رہ گئی ہے اور باقی جو مٹیریل بچا وہ ن لیگ رابطہ کمیٹی کے ممبر ڈھٹائی سے اٹھا کر اپنے گھروں میں لے گئے اور تنقید ن لیگ پر ہو رہی ہے کہ یہ کیسی پارٹی ہے جس میں کو ئی پوچھ گچھ نہیں ہے چوہدری نثار علی خان نے کلر سیداں کے لیے اتنی خطیرگرانٹس جاری کی ہیں جس کی وجہ سے عوام ان کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں علاقہ کے ایم پی اے بھی اپنی جگہ سعی کر رہے ہیں کہ مسائل چھوٹی سطح پر حل ہوں اور اسی وجہ سے وہ ہر اتوار کو چوک پنڈوڑی میں واقع اپنے دفتر میں عوامی مسائل سنتے اور حل کر تے نظر آتے ہیں اور ووٹروں سے مسلسل رابطہ رکھے ہوئے ہیں
اور بلدیاتی نمائندوں کے کرنے والے کام بھی خود کر رہے ہیں اور پارٹی کو بھی منظم طریقے ے سنبھالے ہوئے ہیں اور ایک عام آدمی کی پہنچ میں ہیں چوہدری نثار علی خان نے تر قیاتی کاموں کے حوالے سے اپنا لو ہا منوایا اور قمر السلام راجہ نے تعلیمی حوالے سے اپنا کر دار ادا کیا ہے .مزید اس امر کی بھی ضرورت ہے کہ چوہدری نثار علی خان تعلیمی حوالے سے کسی میگا پراجیکٹ کا اعلان کریں اور امید ہے کہ وہ جلد اس بارے خوشخبری سنائیں گے گزشتہ کئی ماہ سے احتجاجی سیاست جاری ہے جس کی وجہ سے وزیر داخلہ بہت مصروف ہیں اس کے علاوہ مہنگائی نے بھی عوم کو پریشان کر رکھا ہے اب جب کہ حکومت نے پیٹرلیم مصنوعات کی قیمتوں میں مزید کمی کا عندیہ دیا ہے لیکن اس کا فائدہ عوام کو اس وقت پہنچے گا جب مہنگائی کم ہو گی کرائے کم ہوں گئے عوام کو کچھ فوائد حاصل ہوں گئے دھرنوں کے شروع میں تو کلر سیداں کی سیاست میں کچھ گرمی آئی تھی لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کچھ ٹھنڈک آگئی ہے اس کی وجہ PTI کی مقامی قیا دت کی ناقص پالیسیاں ہیں جن کی وجہ سے وہ عوام کو متحرک کرنے میں نا کام رہی ہے شروع میں تو کلر سیداں سے با قا ئدہ طور پر قافلے دھرنے میں شرکت کے لیے جا یا کرتے تھے لیکن اب بہت کم ایسا دکھائی دیتا ہے تحریک انصاف کے رہنما ہارون ہاشمی ،شیخ امتیاز ،راجہ آفتاب ،ماہ پارہ مغل اور دیگر نوجوان رہنما کافی متحرک نظر آتے ہیں اب دیکھنا یہ ہے کہ تحریک انصاف کلر سیداں میں 30 نومبر کے لیے کس لائحہ عمل کا اعلان کرتی ہے اور یہ کیسے ثابت کرتی ہے کہ تحریک انصاف این اے 52 میں اپنا مقام بنا چکی ہے پیپلز پارٹی اب اتنی متحرک نہیں ہے اور کا رکنان اپنی قیادت کی پالیسیوں سے مایوس ہیں بیر سٹر ظفر اقبال کے علاوہ کوئی دوسرا رہنما دکھائی نہیں دیتا ہے ہو سکتا ہے کہ آئندہ الیکشن میں پیپلز پارٹی اپنا کوئی امیدوار سامنے لانے میں کا میاب ہوجائے لیکن اس کے لیے اس کوسخت محنت کی ضرورت ہو گئی بصورت دیگر کھو یا ہوا مقام حاصل کرنا بہت مشکل ہو جائے گا PPP کو حلقہ این اے 52 اور پی پی 5 میں پارٹی کو دوبارہ منظم کرنا ہو گا اور پرانے اور ناراض کا ر کنوں کو اپنا مقام دو بارہ دینا پڑے گا اور عوام سے مکمل رابطہ رکھنا ہو گا لیکن اگر دوسری طرف دیکھا جائے تو صاف نظر آتا ہے کہ اگر ن لیگ نے ترقیاتی کام اسی طرح جاری رکھے تو PTI اور PPP دونوں کے لیے مشکلات اسی صورت میں مو جود رہیں گے اور اس حلقہ میں ن لیگ کا مقابلہ مذ کور ہ پارٹیوں کے لیے نا ممکن ثابت ہو گا کیونکہ جو بھی ہو جیسا بھی ہو ووٹ بھی کم ہوجائیں گے لیکن کلر سیداں کے عوام کی پسندیدہ جماعتوں میں سر فہرست ن لیگ ہی ہے اور عوام چو ہدری نثار علی خان اور قمر السلام راجہ کی پالیسیوں سے اتفاق کرتے نظر آرہے ہیں
اور خاص طور پر چوہدری نثار علی خان کے ترقیاتی منصوبوں کی برسات کی وجہ سے کلر سیداں کی سیاست میں کافی حد تک تبدیلی آچکی ہے اور عوام مطمئن دکھائی دے رہے ہیں اتنا فرق ضرو ر پڑے گا کہ تحریک انصاف دیگر پارٹیوں کو بہت ٹف ٹائم دے گی خاص طور پر نو جوانوں کے جذبات دیکھ کر محسوس ہو تا ہے کہ PTI ن لیگ کے لیے مشکلات ضرور پیدا کرے گی اور نو جوان صرف اپنا لیڈر عمران خان کو ہی سمجھ رہے ہیں پی ٹی آئی کے رہنما دعویٰ کر رہے ہیں کہ 30 نومبر کو ثاب کردیں گے کہ کلر سیداں کے عوام تحریک انصاف کے ساتھ ہیں مگر یہ تمام باتیں وقت ہی ثابت کرے گا ادھر ن لیگ کے متعلق بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ ن لیگ پر صرف چند افراد قابض ہو چکے ہیں اور باقی کا رکنوں کو نظر انداز کیا جا رہا ہے اسی طرح یونین کونسل غزن آباد جو ہر لحاظ سے ن لیگ کا گڑھ سمجھی جاتی ہے چند رابطہ کمیٹیو ں کے ممبران کی وجہ سے تقریباََ خسارے میں پہنچ چکی ہے اور اگر ن لیگ نے ایسے افراد کو لگام نہ دی تو آنے والے دنوں میں حالات مزید خراب ہو جائیں گئے اسی طرح یونین کونسل گف اور بشندوٹ کے حالات پر بھی نظر ثانی کی ضرورت ہے..{jcomments on}