سرکار نے ہمارے لیے جو سکول اور کالج بنائے ہیں ہمیں انکو غنیمت ہی جاننا چاہیے۔اگر بجٹ کے اعتبار سے دیکھیں تو اونٹ کے منہ میں زیرہ دینے والی ہی بات ہے مگر ہر تحصیل میں جو (ٹی ایچ کیو) ہسپتالوں کی سہولیات دی گئیں ہیں عوام کے لیے یہ کسی انعامی بونڈ سے کم نہیں کیونکہ یہ سادہ لوح عوام تو اس قابل بھی نہیں جتنا سرکار انکو آٹے میں نمک برابر سہولیات کشکول میں ڈال کر دے رہی ہے۔آبادی بڑھ رہی ہو تو بیماریاں بھی بڑھتی چلی جاتی ہیں یوں ا نفراسٹرکچر بھی ناکافی ہو رہا ہے۔مگر مجبوری کا نام شکریہ۔چھوٹے امراض کے لیے میں اکثر والدہ کو لے کر ٹی ایچ کیو کا رُخ کرتی ہوں، کیونکہ جس طرح مجھے پرائیویٹ اسکولز کی اندر کی کہانی کا علم ہو چکا ہے یوں ہی پرائیویٹ ہسپتالوں کا بھی علِم ہے کہ وہاں پر مریض زیادہ اہم اور قابل قدر سمجھا جاتا ہے یا فیس۔خیر 10اپریل کو میں کلر سیداں کے لیے صبح سویرے نکلی کیونکہ آنکھوں‘ دانتوں کا معائنہ‘ ایکسرے اور دیگر ٹیسٹ کروانے تھے جن کے لیے خاصاََوقت درکار ہوتا ہے۔خیر رمضان میں دل پر پتھر رکھ کر رَخت سفر باندھا کہ ہجوم بھی کم ہوگا عورتیں افطاری کی تیاری کرتی ہیں تو ہسپتالوں کا رخ کم کرتی ہونگی۔مگر وہاں پہنچ کر عورتوں اور مردوں کی لمبی قطار دیکھ کر یہ خوش فہمی بھی دور ہو گئی کہ آج پرچی والا پُل بھی عبور کرنا ہوگا۔ لمبی سے لمبی قطار بیس تیس عورتوں پر مشتمل/ محیط ہوتی ہے چونکہ کاؤنٹر بھی صرف ایک ہے بیس تیس عورتوں کی پرچی بنتے بنتے سورج مشرق سے چل کر مغرب تک چلا جاتا ہے وہ تو غروب ہو نہ ہو ہماری طبیعت، وٹامن، پروٹین اور کیلشیم بھی کھڑے کھڑے غروب ہونا شروع ہوجاتی ہے۔میں نے بوڑھوں کو دیکھ کر دل بڑا کیا کہ وہ کھڑے ہو سکتے ہیں تو میں کیوں نہیں یوں والدہ کی جگہ میں قطار میں لگ گئی،آگے پیچھے دیکھا، معلومات لیں کہ ساٹھ، ستر عمر کے لوگوں کی پرچی کا کاؤنٹر تو الگ بنایا ہے جب کہ یہاں تو جگاڑ لگا رکھی ہے۔ اسی دوران ایم ایس کے روم کے پورے پانچ چکر لگائے کہ انکو بتلایا جائے کہ سہولیات ناکافی ہیں۔عملے کی بھی کمی ہے لہذا ان معاملات میں بہتری آنی چاییے پھر معلوم پڑا کہ اُنکی میٹنگ کا دورانیہ بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے۔ جب والدہ کے تمام ٹیسٹ اور رپورٹس لے لیں تو ڈاکٹر کو دکھانے کیلئے گئی ڈینٹسٹ نے کہا انہیں کچھ کھلائیں پلائیں تاکہ انکی داڑھ نکال سکیں۔ہم نے مین گیٹ کا رُخ کیا تو راستے میں دو خواجہ سرا کھڑے تھے انکو کچھ صدقہ کرنے کی نیت سے جب بیگ میں ہاتھ ڈالا تو پتا چلا کہ کسی چورنی نے ہاتھ صاف کیا اور بٹوہ لے اُڑی۔ اس واقعے کے فوراََ بعد عملے سے معلومات لی تو انہوں نے پولیس کاؤنٹر جانے کو کہا اور اسکے بعد ایم ایس کے روم میں جانے کو کہامجھے لگا کہ کیمرے کاؤنٹر کے عین عمودی سمت میں لگے ہوئے ہیں یوں کیمروں کی ریکارڈنگ / فوٹیج باآسانی مل جائے گی۔ میں نے فوراً انکی بات پر عمل کیا پولیس کاؤنٹر پہنچی تو وہاں تالا لگا ہوا تھا اسکے بعد ایم ایس سے اجازت طلب کر کے انکے کمرے میں گئی تو انکے استفسار پر بتایا کہ میں مریضہ ہوں ہسپتال آئی تھی کچھ پوانٹس آپکے گوش گزار کرنا چاہتی ہوں۔انکے دفتر میں ایک امپلائی بیٹھی تھی وہ کہنے لگے یہ میم بیٹھی ہیں آپ انکو بتائیں میں نے اک بار پھر کہا سر بات آپ سے کرنی ہے وہ کہنے لگے یہ بھی مجھے رپریزنٹ کر رہی ہیں (سیکرٹری ہیں) ان سے کریے۔خیر پھر میں نے بتایا کہ میرا والٹ نکال لیا گیا ہے میری اس بات پر ایم ایس ذرا بھر بھی چونکے نہیں وہ بالکل مطمئن تھے کہنے لگے یہ تو معمول کا کام ہے ہم کچھ نہیں کر سکتے۔ ریکارڈ کی بات کی تو آئیں بائیں شائیں کر گئے۔میں نے بات بدل کر کہا سر میں پھر کسی دن چکر لگاؤں گی پرنٹ میڈیا اور سوشل میڈیا سے منسلک ہوں کلر سیداں ہسپتال پر پیکج بناؤں گی ہسپتال کی پازیٹو سائیڈ کو دکھائیں گے پھر میں چل پڑی۔مجھے اندازہ ہوگیا کہ یہ شخص احساس سے عاری ہے اس لیے بحث مباحثہ نہیں کیا پوائنٹ تو یہ تھا کہ اسی وقت یہ واقعہ پیش آیا تھا پرچی والے کاؤنٹر پر دو کیمرے بھی نصب تھے تو ایم ایس نے کیوں انکار کیا کہ ہم کچھ نہیں کر سکتے۔میرا کلر سیداں کے باسیوں اور خطہ پوٹھوہار کے لوگوں سے سوال ہے کہ یہاں پڑھے لکھے لوگ رہتے ہیں لوگوں میں اس قدر شعور ہے کہ وہ مسائل کو حل کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں،پرچی والی قطار 15 سے بیس لوگوں پر مشتمل ہے آئے دن چوریاں ہو رہی ہیں وہاں پولیس کاؤنٹر کس لیے بنایا گیا ہے۔ایک انگارے یا چنگاری کو وقت پر بجھا دیں تو آگ مزید بھڑکتی نہیں۔ جرم اس وقت بڑھتا ہے جب اسکی روک تھام کے لیے اقدام نہ کیے جائیں۔اگر کلر سیداں ٹی ایچ کیو میں یوں ہی جرائم پیشہ لوگ مریضوں کو نشانہ بنا کر لوٹتے رہے تو وہ دن دور نہیں کہ یہ بھی کراچی،لاہور اور دیگر بڑے شہروں جیسا شہر بنتا جائے گا لوگوں میں عدم یقین کی کیفیت پیدا ہوگی،خوف و ہراس پھیلے گا،متوسط اور نچلا طبقہ ان گینگ کے ہاتھوں لُٹتا رہے گا۔سرکار کا کام ہے کیمرے نصب کرنا ان پر عمل دارآمد کروانا عملے اور افسران کی ذمہ داری ان گنت واقعات ہو چکے ہیں مگر ہسپتال کے عملے اور افسران نہ جانے کس دن کا انتظار کر رہے ہیں۔یہ تو وہی بات ہے نا جب تک کسی اپنے کی موت نہ ہو تو انسان یہی سمجھتا ہے کہ لوگ مر رہے ہیں۔ہم تو محفوظ ہیں۔پاکستان میں کرپشن بڑھنے کی یہی وجوہات ہیں کہ ہر ادارہ بشمول عوام انفرادی طور پر سوچتے ہیں اجتماعی طور پر نہیں یہ خود غرضی کی انتہا ہے اور جب ایسا ہو تو انسانیت کا معیار گر جاتا ہے قومیں پستی کا شکار ہوتیں ہیں زوال انکا مقدر ہوتا ہے اچھا انسان بننے کے لیے انسانیت کا ہونا لازم و ملزوم ہے۔آخر میں ایک بار پھر کلر سیداں کی با شعور عوام سے اپیل کروں گی اُٹھیں اور اس جرائم کے خلاف آواز اٹھائیں خود کو خطہ پوٹھوہار کے مثالی باسی بنائیں۔جرائم میں تب ہی کمی آتی ہے جب مجرم کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے تاکہ سزا کے خوف سے نشان عبرت بنایا جائے۔ حضرت عثمان غنی نے فرمایا!” کبھی کبھی جرم معاف کرنا مجرم کو گناہ گار بنا دیتا ہے”۔
108