225

کلرسیداں جنگلات میں آ گ لگنے کے واقعات میں اضاف

   تحریر چوھدری محمد اشفاق
                                               

درخت ماحول میں تازگی اور خوبصورتی کا باعث ہوتے ہیں درخت فضاء کو آلودگی سے بچاتے ہیں اور انسان کو آکسیجن مہیا کرتے ہیں اس کے ساتھ یہ آبی کٹاؤ کی روک تھام کا زریعہ بھی ہیں جب صبح و شام پرندے درختوں پر بیٹھ کر سریلی سریلی آوازیں نکالتے ہیں تو دل کو بہت سکون و سرور محسوس ہوتا ہے مگر بد قسمتی سے ہم نئے درخت لگانے کے بجائے پہلے سے لگے ہوئے درختوں کو کاٹ کر ان کی جہگہ میدان بنا رہے ہیں مکانوں کی تعمیر کر رہے ہیں جس سے ہمارے قدرتی ماحول کو بہت نقصان پہنچ رہا ہے سب سے بڑھ کر بد بختی یہ ہے کہ پچھلے ایک ماہ کے دوران کلرسیداں کے مختلف علاقوں میں جنگلات کو آگ لگنے کے متعدد واقعات رونما ہو چکے ہیں جن میں سب سے پہلے ممیام کے مقام پر قدرتی جنگل کو آ گ لگا دی گئی جو پھیل کر قریبی دیہات تک بھی پہنچ گئی اس کے بعد7جون کو کلرسیداں کے ہی علاقے دھمالی، ولائیت آباد،دھان گلی،کے جنگلات کو بھی آگ لگی دھان گلی کے جنگلات میں لگنے والی آگ نے پٹرولنگ چیک پوسٹ سر صوبہ شاہ کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ریسکیو1122کلرسیداں نے فوری موقع پر پہنچ کر آگ کو قابو کیا جس وجہ سے علاقہ بڑے نقصان سے بچ گیا اسی روز کلرسیداں بائی پاس پر درختوں اور جھاڑیوں کو آگ لگ گئی اس پر بھی بروقت قابو پا لیا گیا ہے عین اسی دن ماہلی راجگان کے جنگلات میں بھی آگ لگی جس کی رفتار اتنی زیادہ تھی کے راولپنڈی سے رسکیو 1122کی فائر فائیٹر ٹیم کو طلب کیا گیا جنہوں نے بڑی مشکل سے آگ پر قابو پایا ہے اس کے بعد 8جون کو سدا کمال کے مقام پر جنگل کو آگ لگی گئی اسی دن سلطان خیل اور ممیام کے جنگلات میں دوبارہ آگ لگ گئی اس پر بھی ریسکیو 1122کلرسیداں کی بہادر ٹیم نے قابو پاتے ہوئے علاقے کو بڑے نقصان سے بچا لیا اس کے بعد10جو ن کو جوچھہ ممدوٹ کے جنگل میں کسی نے آگ لگا دی 13جون کو ایک بار پھر سلطان خیل میں جنگل کو دوبارہ آگ لگا دی گئی سوال یہ پیدا ہوتے ہے کہ آگ خود بخود تو نہیں لگتی ہے ضرور کوئی اس برے کام میں ملوث ہے جو کلرسیداں کے جنگلات کی تباہی و بربادی کا سبب بن رہے ہیں جنگلات میں آگ لگنے کی وجہ سے جہاں ماحول کو شدید نقصان پہنچ رہا ہے وہاں پر ایسے شر پسند عناصر گناہ کبیرہ کے مرتکب بھی ہو رہے ہیں کیوں کہ جنگل میں چرند پرند چھوٹے جانور اور ان کے بچے بھی آ گ کی لپیٹ میں آ کر مر رہے ہیں یہ ہم کس طرف جا رہے ہیں آگ لگنے کی بڑی وجہ مقای لوگوں کی آپس میں لغت بازی بھی ہے وہ ایک دوسرے کو نقصان پہنچانے کی خاطر دوسروں کیلیئے بھی مصیبت کھڑی کر رہے ہیں اور جنگلوں میں موجود اللہ پاک کی ننھی مخلوق کی نسل کی تباہی کا باعث بھی بن رہے ہیں ایسے شر پسند لوگ اپنے ساتھ بھی بہت بڑی زیادتی کر رہے ہیں ان کو اس بات کا علم نہیں ہے کہ وہ بظاہر دشمنی تو اپنے لوگوں کے ساتھ کر رہے ہیں لیکن ان جنگلات میں اپنے مسکن بنائے ہوئے پرندوں ان کے بچوں چھوٹے جانوروں اور ان کے بچوں کا کیا قصور ہے وہ ان کی زندگیوں کے پیچھے کیوں پڑے ہوئے ہیں ان پرندوں کے ساتھ ساتھ جنگلوں میں چھوٹے حشرات بھی ہوتے ہیں روز محشر بھی یہ ننھی مخلوق اللہ پاک کے سامنے گڑ گڑائے گی کہ ہمارا کیا قصور تھا جو ہم کو جلا کر راکھ کر دیا گیا ہے اتنا بڑا جرم کرنے والے لوگ اس ننھی مخلوق کے قاتل ہیں کیا ان کو معلوم نہیں ہے کہ اگرہمارے ایک بچے کو بخار ہو جائے تو پورا گھر پریشانی میں مبتلا ہو جاتا ہے اور جس ننھی مخلوق کے انڈے بچے آگ سے راکھ بن رہے ہیں ان کا کیا حال ہوگا ان کو کتنی تکلیف پہنچی ہو گی وہ ان کو بدعائیں دیتے ہیں وہ اپنے رب کے سامنے فریاد بھی کرتے ہیں اور ایک وقت ضرور آئے گا کہ اس ننھی مخلوق کی بدعائیں ضرور اپنا اثر دکھائیں گی اور ان کے قاتل اپنے انجام کو پہنچیں گے دوسری طرف محکمہ جنگلات جو کسی غریب شخص کی طرف سے درخت کی ایک ٹہنی کاٹنے پر اتنے بھاری جرمانے عائد کرتے ہیں کہ جو ان کی برداشت سے بھی باہر ہوتے ہیں کیا وہ اتنا بڑا محکمہ ان آ گ لگانے والے مجرموں کا کھوج نہیں لگا سکتا ہے اس میں فارسٹ والوں کی بھی بڑی کوتاہی شامل ہے جو آج تک مقامی پولیس کو ساتھ ملا کر آگ لگانے والون کا سراغ لگانے میں ناکام ہے ایسے عناصر کا سراغ کیوں نہیں لگایا جا رہا ہے اس پر بھی سوال اٹھتے ہیں ضرورت اس امر کی ہے نئے درخت لگانے کے ساتھ ساتھ پرانے جنگلات کی حفاظت کیلیئے کوئی موثر نظام کا ہونا بہت ضروری ہے ایسے افراد کا محاسبہ ضروری ہے بصورت دیگر جہاں کسی کا دل کرے گا وہ جنگل کو آگ لگا کر غائب ہو جائے گا کیوں کو اس کو اس بات کا مکمل پتہ ہے آگ لگانے والوں کو پکڑنا کسی بھی ادارے کے بس کی بات نہیں ہے زمہ داران کو قانون کے کٹہرے میں لانے سے ہی ایسے واقعات کی روک تھام ممکن ہو سکے گی کلرسیداں کے متعلقہ سرکاری اداروں کو چوکس ہونا پڑے گااگر صرف ایک ہفتے میں آگ لگنے کے اتنے زیادہ واقعات ہوئے ہیں اگر ان واقعات کو روکنے کیلیئے کوئی ٹھوس منصوبہ بندی نہ کی گئی تو ایسے واقعات کی تعداد میں اضافہ ہوتا چلا جائے گا

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں