کشمیر‘فلسطین اور روہنگیا مسلمانوں کے لیے بھی اجلاس کی ضرورت 168

کشمیر‘فلسطین اور روہنگیا مسلمانوں کے لیے بھی اجلاس کی ضرورت

19دسمبر کو اسلام آباد میں اسلامی تعاون تنظیم کے وزراء خارجہ کا غیر معمولی اجلاس طلب کیا گیا۔ اس اجلاس کا یک نکاتی ایجنڈا افغانستان تھا۔ یہ اجلاس کامیابی سے پایا تکمیل تک پہنچا اور اللہ کے فضل و کرم سے وی آئی پی وفود کی آمد و رفت بخیر و عافیت انجام پائی۔ جب تک وی آئی پی وفود اسلام آباد میں رہے لوگوں کے دلوں میں خوف کے سائے منڈلاتے رہے کہ خدا نخواستہ کوئی غیر معمولی حادثہ یا واقعہ کسی بھی وفد کے ساتھ پیش آگیا تو پاکستان پر آئندہ غیر ملکیوں کا اعتماد بالکل ختم ہو جائے گا کیونکہ پاکستان کے دشمن خصوصاً بھارت یہی چاہتا ہے اور اس کی تاک میں بھی رہتا ہے اس لیے کوئی شرارت بھی کر سکتا ہے۔اس دوران ایک چھوٹا سا واقعہ وفاقی وزیر شبلی فراز کی گاڑی پر فائرنگ کا پیش آیا جو کہ قابل مذمت ہے لیکن اللہ کا شکر کہ وہ ہمارااندرونی معاملہ تھا کسی غیر ملکی کے ساتھ ایسا نہیں ہوا اور اجلاس بخیر و عافیت اختتام پذیر ہو گیااس اجلاس میں افغانستان کے حوالے سے کئی اہم فیصلے کیے گئے افغانستان کو پر امن، مستحکم اور خودمختار بنانے کا عزم کیا گیاافغانستان میں انسانی بحران کے پیش نظر افغانستان کی مالی امداد پر زور دیا گیا اور کئی ممالک کے وزراء نے افغانستان کے لیے امداد کا اعلان بھی کیا۔ افغانستان کو دہشتگردوں سے پاک کرنے کا عزم کیا گیا اور افغان حکومت کے ساتھ تعلقات قائم رکھنے کے لیے او آئی سی کا ایک خصوصی نمائندہ مقرر کیا گیا۔ افغان حکومت پر زور دیا کہ وہ انسانی حقوق کی پاسداری کرے اور اقوام متحدہ اور او آئی سی کے چارٹر کے تحت انسانی حقوق کے قوانین پر عمل درآمد کرے۔ افغانوں کو پناہ دینے والے ممالک کی امداد کا مطالبہ بھی کیا گیا۔ اس کے علاوہ اسلامی رواداری، اعتدال، تعلیم اور خواتین کے حقوق کے حوالے سے افغان حکومت سے بات چیت کے لیے علماء کے ایک وفد کے اہتمام کا عزم کیا گیا مجموعی طور پر یہ اجلاس نہایت سود مند ثابت ہوا جس میں افغانستان کی موجودہ صورت حال پر غور کیا گیااور افغانوں کے لیے امداد کاانتظام کرنے میں یہ اجلاس نہایت معاون ثابت ہوا۔ اس اجلاس کے ذریعے طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنے اور انہیں مستحکم کرنے کی راہ بھی ہموار ہوتی دکھائی دی۔ یہ ایک غیر معمولی اجلاس تھا جو افغانستان کی صورتحال پر منعقد ہوا اور اس کے ثمرات بھی دیکھے گئے۔ ایسے ہی دیگر مظلوم اسلامی ممالک یا خطوں کے حوالے سے بھی غیر معمولی اجلاسوں کی ضرورت ہے۔ ان میں کشمیر، فلسطین اور روہنگیا مسلمان سرفہرست ہیں۔ کشمیر میں بھارت نے بربریت کی انتہا کر رکھی ہے، کشمیر جو کہ مسلم اکثریتی خطہ ہے اور سیاسی، ثقافتی، مذہبی جغرافیائی اور عوامی جذبات کے لحاظ سے پاکستان اس پر پورا پورا حق رکھتا ہے لیکن بھارت نے بزور طاقت اس پر قبضہ جما رکھاہے اور وہاں کے مسلمانوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ ڈھا رہا ہے۔ پوری وادی کو مقتل بنا رکھا ہے جہاں آئے روز شہریوں بالخصوص نوجوانوں کو شہید کر رہا ہے۔ بھارتی حکومت نے کشمیر میں ایک طویل عرصے سے لاک ڈاؤن لگا رکھا ہے جس کی وجہ سے وہاں کے مسلمان آزادانہ نقل و حرکت نہیں کر سکتے۔ یہ درست کہا جاتا ہے کہ کشمیر کو بھارت نے دنیا کی سب سے بڑی جیل میں تبدیل کر رکھا ہے۔ کشمیری بھیڑیا نما ظالم بھارتی فوجوں کے ہاتھوں یرغمال بنے ہوئے ہیں اور پوری امت مسلمہ بالخصوص پاکستان کی طرف امداد کی امید سے دیکھ رہے ہیں کہ شاید کوئی مسلمان ملک آگے بڑھے اور ہمیں ان ظالموں کی قید سے رہائی دلا دے۔ مسئلہ فلسطین بھی کشمیر کی طرح ایک طویل عرصہ سے امت مسلمہ کی توجہ کا منتظر ہے۔ وہاں بھی بھارت کے بھائی اسرائیل نے ناجائز تسلط قائم کیا ہوا ہے اور وہاں کے عوام پر ظلم و ستم ڈھا رہا ہے۔ فلسطینی مسلمان بموں اور جہازوں کی گن گرج میں زندگی
گزار رہے ہیں۔ کسی بھی وقت اسرائیل کے سرپر خون سوار ہو جاتا ہے اور وہ اپنے طیارے لے کر پہنچ جاتا ہے اور کوئی بہانہ تراش کر براہ راست شہری آبادیوں پر بمباری شروع کر دیتا ہے جس سے کئی معصوموں کی زندگیوں کے چراغ گل ہو جاتے ہیں۔ ان کی چیخ و پکار درندہ صفت اسرائیلیوں کو کوئی خوبصورت میوزک محسوس ہوتا ہے اور وہ اس پر خوشی کا اظہار کرتے ہیں۔ فلسطینی بھی امت مسلمہ کا راستہ دیکھتے دیکھتے اب خاموشی سے موت کا راستہ دیکھنے لگے ہیں۔ کیونکہ امت مسلمہ نے ان کے سفاک قاتلوں سے بلا مشروط یاریاں لگانی شروع کر دی ہیں، ان سے گلے ملنے لگے ہیں۔ اب فلسطینی کس امید سے امت مسلمہ کو پکاریں؟
اسی طرح میانمار کے مسلمانوں پر 2017میں وہاں کی فوج نے یک دم ظلم کی انتہا کر دی اور لاکھوں معصوموں کے گھر جلا دیے ہزاروں بے دردی سے قتل کر دیے۔ میانمار کے مسلمان بمشکل اپنی جانیں بچا کر اپنے گھر بار چھوڑ کر بھاگنے اور ارد گرد کے ممالک میں پناہ لینے پر مجبور ہو گئے۔ لیکن جن ممالک میں انہوں نے پناہ لی وہاں بھی ان کے ساتھ نہایت غیر انسانی سلوک کیا جاتا ہے۔ ان میں سے کچھ بھارت میں ہیں، بھارت میں تو پہلے سے بھارتی مسلمان شہریوں کے ساتھ اچھا سلوک نہیں ہو رہا تو باہر سے آئے روہنگیا مسلمانوں کے ساتھ کیا بہتر سلوک کریں گے۔ اس وقت روہنگیا مہاجرین کی سب سے زیادہ تعداد بنگلہ دیش میں ہے وہاں تقریباً دس لاکھ روہنگیا پناہ لیے ہوئے ہیں جو کہ بنگلہ دیش پر بہت بڑے بوجھ کا باعث ہیں۔ انہیں وہاں کوئی خاص حقوق اور سہولیات حاصل نہیں ہیں، ان کا مستقبل نہایت تاریک ہے۔ نہ تو وہ واپس اپنے ملک میں جا سکتے ہیں اور نہ ہی بنگلہ دیش میں خود کو ترقی دے سکتے ہیں۔ لہٰذا مسلم حکمرانوں کو چاہیے کہ وہ ان تمام خطوں کے مظلوم مسلمانوں کے لیے الگ الگ اجلاسوں کا انعقاد کریں اور ان کے مسائل پر غور و خوض کریں۔ انہیں بحرانوں سے نکالنے کے لیے کوشش کریں اور ہرطرح کی امداد پہنچائیں۔ کشمیری، فلسطینی اور برمی مسلمانوں کو ظلم سے نجات دلانے کے لیے بھارت، اسرائیل اور میانمار کی حکومتوں پر دباؤ ڈالیں کہ وہ مسلمانوں پر ظلم و ستم بند کریں اور وہاں کے مسلمانوں کے حقوق کا خیال کریں۔ اگر مسلم امہ اپنے اندر غیرت اسلامی پید ا کر کے یک زبان ہو جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ کفر ان کے سامنے گھٹنے نہ ٹیکے
ضیاء الرحمن ضیاءؔ

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں