زندگی انسان کو صرف ایک بار ملتی ہے بس جانے کا وقت مقرر ہے جو رات قبر میں ہے وہ باہر نہیں ہو سکتی اور جو سانسیں باقی ہیں وہ پور ی کئے بنا قبر میں نہیں جا سکتے،اچھے طرز زندگی کی خواہش ایک ایسی آرزو ہوتی ہے جو انسان کو انتہائی قدم اٹھانے پر بھی مجبور کر دیتی ہے۔ پاکستان میں بڑھتی ہوئی بے روزگاری اور بیرون ملک جا کر پیسہ کمانے کی خواہش بہت سے نوجوانوں کو کچھ ایسے اقدامات اٹھانے پر مجبور کر دیتی ہے، جو ان کے لیے تو بدترین ثابت ہوتے ہی ہیں اور ان کے گھر والے زندگی بھر کے لیے انکی راہ تکتے رہ جاتے ہیں آ ج کل معاشی حالات جس نہج پر ہیں اُن سے اچھے بھلے کھاتے پیتے لوگ متاثر ہوئے ہیں، غریب آدمی تو کسی شمار میں ہی نہیں۔ایسے میں جب لوگ ہر قیمت پر یورپ جانے کا فیصلہ کرتے ہیں تو اُن کے دماغ میں بس یہی ہوتاہے کہ ایک یورو کے تین سو سے زیادہ ملیں گے،چند ہی دنوں میں سارا قرضہ اتر جائے گا، ماں کا علاج ہوجائے گا، بہن کی شادی ہوجائے گی،بچوں کا مستقبل بن جائے گا اسی فکر میں دیار غیر مزدوری کیلئے جانیوالے تارکین المناک کشتی حادثہ میں اپنی جان سے چلے گئے اور بہت سے لا پتہ ہو گئے۔ ڈوبتی کشتی کو سکیورٹی اہلکار کناروں پر کھڑے دیکھتے رہے گھنٹوں بعد امدادی کارروائی بھی افسوسناک اور غیر انسانی اقدام ہے۔ ایسا ہی ایک واقعہ حال میں پیش آیا ہے، جہاں نوجوانوں کو سہانے مستقبل کا خواب موت کی وادی میں لے گیا۔
حادثہ آنکھوں میں یورپ جا نے کے سہانے خواب سجانے والوں کیلئے سبق ہے یونان کشتی حادثہ میں کلرسیداں کے نواحی گاؤں میرہ سنگال کے تین نوجوان عدیل احمد، عاقب جاوید اور ثاقب شبیر14جون کو لیبیا سے اٹلی جاتے ہوئے یونان میں کشتی حادثے میں لاپتہ ہوئے جن کا اب تک کچھ پتا نہ چل سکا واقعے کے بعد میرہ سنگال گاؤ ں میں کہرام مچا ہوا ہے اور لواحقین اپنے پیاروں کے لیے پریشان ایجنٹ کے ذریعے اٹلی جانے کے لیے تقریبا 22 لاکھ روپے ادا کیے تھے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ پاکستان میں نوجوانوں نسل غیر قانونی طریقے سے باہر جا کر آباد ہونے کا رجحان بھی زور پکڑ گیا ہے۔ انسانی سمگلنگ کے ہتھے چڑھنے والے ایسے ہی کلرسیداں کے تین نوجوان کی لاپتہ خبر نے مجھے قلم اٹھانے پر مجبور کر دیا۔یہ تینوں نوجوان یورپ جانے کے لئے بے تاب تھے یورپ جانے کے لئے اِس بد قسمت کشتی میں سوار ہوئے تھے جو منزل پر پہنچنے سے پہلے ہی الٹ گئی اوروطن عزیز کے شہری کیوں دوسرے درجے کے شہری کہلانا پسند کرتے ہیں، یہ سوال اپنی جگہ اہم ہے۔ پاکستان میں روزگار کے مواقع بڑھائے جائیں تو کوئی کیوں یورپ کی گلیوں میں چھپتے پناہ گزین بننے کی تمنا کرے؟ پاکستان میں اُ مید دلائی جائے تو کوئی اپنے مستقبل کو سمندر کی لہروں کے سپرد کیوں کرے؟ وطن عزیز کو فلاحی ریاست بنایا جائے تو کوئی کیوں یورپ کی آس لگائے؟سہانے خواب دیکھنا کوئی غلط بات نہیں، اور نہ ہی یہ ناجائز خواہشات ہیں، یہ تو حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ نوجوانوں کو اچھے روزگار اور اچھی نوکری مہیا کرے لیکن افسوس کہ یہاں تو الٹی گنگا بہتی ہے۔ کسی بھی ادارے میں نوکری کا اشتہار شائع ہوتا ہے تو اس کی پہلی شرط ریٹائرڈ ملازمین کو ترجیح دی جائے گی سے ہی شروع ہوتا ہے ایک ریٹائرڈ ملازمین دوہری نوکری اور پینشن لے سکتا ہے لیکن پڑھا لکھا نوجوان اس سے محروم کیوں؟ اور باقی جو ادارے ہیں وہاں بھرتی ہونے سے 60سال تک نوکری کرنا یہ بہت ظلم کی بات ہے حکومت کوئی حکمت عملی اپنائے کہ ہر پاکستان صرف ایک ہی ادارے میں نوکری کرے اور اس کی مدت طے ہو نہ کہ 60سال تک۔ نوجوانوں کو ترجیح بنیادوں پر نوکریاں مہیا کی جائیں اور بغیر کسی سفارش کہ صرف اور صرف میرٹ پر پڑھے لکھے نوجوانوں کو آگے لایا جائے جو اپنے مستقبل کے سہانے خواب پورے کرنے کے ساتھ ساتھ ملک و قوم کی ترقی کیلئے بہتر ثابت ہوں۔ حکومت اگر ایسی حکمت عملی اپنائے تو پھر یہ آئے دن نوجوانوں کو اس طرح موت خریدنی نہ پڑے۔ ایک توجہ طلب بات ہر کوئی بجائے لواحقین سے ہمدردی کرنے کے یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ اتنے پیسے لگا کر بندہ اپنے ملک میں کوئی چھوٹا موٹا کاروبار بھی کر سکتا ہے ان سے سوال ہے کہ یہاں کے حالات سے کون واقف نہیں ہے یہاں تو دو وقت کی روٹی کھانے والے سے لوگ نوالہ تک چھین لیتے ہیں، جہاں انصاف کی سیل لگی ہو جہاں اپنے من کی بات کرنے پر جیل میں ڈال دیا جائے ایسے ملک سے بھاگنے کے سوا اور کوئی چارہ نہیں،
اس وقت کوئی بندہ ایک لاکھ روپے جیب میں رکھ کر سکھ کا سانس نہیں لے سکتا کوئی پتہ نہیں کہ کب کوئی چور،ڈاکو آئے اور چند پیسوں کی خاطر گولیوں سے چھلنی کر کے چلا جائے ایسے واقعات آئے دن دیکھنے اور سننے کو ملتے ہیں۔ کتنے ایسے لو گ ہیں جو ڈکیتوں کے ہاتھوں قتل ہوئے کسی کو انصاف ملا کسی چور یا ڈکیت کو سزا ہوئی ایسی ایک بھی مثال ملتی ہے تو بتائیں پھر ہم کیسے کہہ سکتے ہیں کہ ہم اپنے ملک میں کاروبار کر یں۔ ہم ایسے ملک میں رہتے ہیں جہاں کے وزیر خزانہ صرف یہ بات بتانے کی تنخواہ لیتے ہیں کہ خزانہ خالی ہے۔ جہاں کے بیوروکریٹس کی تنخواہیں اور پینشنیں دس دس لاکھ سے اوپر ہوں، مہینے کا 600لیٹرو پیٹرول اور 300یونٹ بجلی فری ہو اسی کے برعکس ایک مزدور کی دیہاڑی صرف 800روپے اور سارے خرچے اسی میں سے پورے کرنے ہوں ساتھ بجلی کا بل 200یونٹ تک آئے تو 10روپے فی یونٹ ادا کرے اور اگر 200یونٹ سے زیادہ بل آئے تو 22روپے فی یونٹ ادا کرے کیوں غریب لوگوں کا خون چوس رہے ہیں کیا 10لاکھ تنخواہ یا پینشن لینے والے بل نہیں ادا کر سکتے وہ اپنے مقابلے میں ایک غریب دیہاڑی دار جو پورا دن محنت کر کے 800روپے لیتا ہے جس سے وہ گھر کا خرچ، بچوں کی فیس، بجلی کا بل، گیس کا بل بھی ادا کرے اور ان لوگوں کی فری استعمال شدہ پیٹرول، گیس اور بجلی بل ٹیکس کی مد میں ادا کرے،جس ملک کا نظام قرض لے کر چل رہا ہوں وہاں سکیورٹی گارڈ اور پروٹوکول گاڑیاں کیوں استعمال کی جاتی ہیں۔ جب تک یہ افسردہ نظام چلتا رہے گا غریب اسی طرح چکی میں پستے رہے گے اور اسی طرح اپنے مستقبل کی خاطر قربان ہوتے رہیں گے،لیکن افسوس ان سب باتوں کا ارباب اختیار کو اثر نہیں ہوتا اور نہ ہی انہوں نے غریبیوں کیلئے سوچنا ہے، ایسی صورت میں اگر کسی مزدور کو کوئی یورب جانے اور اپنے سہانے خواب پورے کرنے کا جھانسہ دے تو وہ ایک منٹ بغیر سوچھے سمجھے گھر بار،زیور سب کچھ بیچ کر اپنی خواہشات پوری کرنے کیلئے یورپ جانے کو ہی ترجیح دے گا، ایسے ہی بے روزگاری سے تنگ تین نوجوان عدیل احمد ولد صابر حسین مرحوم (عمر34سال) اور تین بیٹے، عاطف جاوید ولد جاوید اقبال (عمر 33سال)تین بیٹیاں اور ایک بیٹا، ثاقب شبیر ولد محمد شبیر اعوان مرحوم (عمر33سال)اور تین بیٹیاں جنہوں نے اپنے مستقبل کو سنوارنے کیلئے یورب جانے کا فیصلہ کیا جو ان کیلئے فائدہ مند ثابت نہ ہو سکا اور ان کی کشتی لیبیا سے اٹلی جاتے ہوئے یونان کے قریب حادثہ کا شکار ہو گئی لواحقین کے مطابق موخہ8جون2023بروز جمعرات کو ان سے آخری مرتبہ رابطہ ہوا اس کے بعد ایجنٹ کے ذریعے معلوم ہوا کہ مورخہ 14جون بروز بدھ کو یونان میں کشتی حادثہ ہوا ہے یہ تینوں نوجوان اسی کشتی میں سوار تھے لیکن ابھی تک تینوں لڑکوں کے بارے میں کوئی مصدقہ خبر نہ ملی کے وہ کس حال میں اور کیسے ہیں پاکستانی سفارت خانہ کی ہدایت کے مطابق شناخت کیلئے تینوں لڑکوں کے ڈی این اے ٹیسٹ کروا کر رپورٹیں اپنی مدت آپ کے تحت مورخہ 21جون کو بذریعہ ای میل پاکستانی سفار ت خانہ کو بھیج دی گئیں۔اسسٹنٹ کمشنر کلر سیداں اشتیاق اللہ خان نیازی نے تینوں لڑکوں کے لواحقین سے گھر آ کر واقع کی تفصیلات معلوم کیں،ڈی این رپورٹ اور ڈیٹا مرتب کر کے اعلیٰ حکام تک پہنچانے اور لواحقین کے ساتھ تعاون کی یقین دہانی کروائی۔آخر میں بس اتنا ہی کہوں گا کہ ریاست کا کتا بھی بھوکا سوئے تو اس کا جواب دہ ریاست کا بادشاہ ہوگا۔